اسمرتی ایرانی بی ۔اے یا بی کام:حلف نامے سے اٹھے کئی سوال

وزیر انسانی فروغ اسمرتی ایرانی کی تعلیمی لیاقت کو لیکرشروع ہوئی بحث نے کئی سوال کھڑے کردئے ہیں۔ اسمرتی ایرانی کو لیکر جو تنازعہ کھڑا ہوا ہے وہ دو نقطوں پر ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ کیافروغ انسانی وسائل جیسی اہم وزارت کے لئے اسمرتی ایرانی سب سے اہل چناؤ ہیں؟دوسرا سوال ان کے ذریعے حلف نامے میں الگ الگ جانکاریوں کا ہے۔ جس منترالیہ کو کبھی مولانا ابوالکلام آزاد، ہمایوں کبیر، ڈاکٹر ترگن سین، پروفیسر نور الحسن و ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جیسے اہل عالموں نے سنبھالا نریندر مودی نے یہ محکمہ ایسی نیتا کے حوالے کیا ہے جو بہت ہی ہلکے پھلکے ٹی وی سیریلوں میں اداکاری کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔سمجھنا مشکل ہے کہ ایک اداکارا کو تعلیم کا یہ محکمہ کیوں ؟ وہ بھی کیبنٹ کے درجے کے ساتھ؟تعلیم کے میدان میں ان کا سیدھا کوئی یوگدان نہیں ہے۔وہ خود بھی بہت تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔سرکاری طور پرتعلیم کی کوئی بندش ہمارے ممبران پارلیمنٹ یا وزیروں پر تو لاگو بھی نہیں ہوتی۔ وہ دیش کے اتنے بڑے سماج کے سیدھے سمپرک میں رہتے ہیں۔ ان کے مسائل کو سمجھنے اور سلجھانے میں ان کا کردار بغیر روایتی تعلیم کے بھی اہم ہوجاتا ہے لیکن دیش کا وزیر تعلیم دیش کو تعلیم کی نیتی اور مختلف پروجیکٹ کے نرمان اور ان کو چلانے میں سیدھا تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے یہ وزارت ایسے شخص کو ہی دی جائے جو گریجویٹ بھی نہ ہو، صحیح فیصلہ نہیں مانا جاسکتا۔ بہتر ہوتا کہ اسمرتی ایرانی کو چائلڈ ویلفیئر یا خواتین سے متعلق وزارت دے دی جاتی۔ دوسرا تنازعہ زیادہ گمبھیر ہے۔سال2004 اور2014 کے لوک سبھا چناؤ میں اسمرتی کے ذریعے دئے گئے حلف نامے میں سے پہلے میں انہوں نے خود کو بی۔ اے بتایا جبکہ دوسرے میں انہوں نے خود کو بی کام فرسٹ بتایا ہے۔ سال2004ء کے لوک سبھا چناؤ میں اسمرتی نے چاندنی چوک سے کپل سبل کے خلاف چناؤ لڑا تھا۔انہوں نے نومینیشن پیپر میں اپنی تعلیم بی ۔اے تک بتائی تھی ، جو1996 میں پوری ہوئی جبکہ حالیہ چناؤ میں امیٹھی سے راہل گاندھی کے خلاف چناؤ لڑنے کے دوران داخل حلف نامے میں انہوں نے اپنی تعلیمی لیاقت بی۔کام فرسٹ ایئر بتائی جو سال1994ء میں کارسپونڈینس کورس سے کررہی تھیں۔اس سے صاف ہوتا ہے کہ اسمرتی کے دونوں حلف نامے صحیح نہیں ہوسکتے۔ کانگریس پارٹی ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے2012ء میں ایک فیصلے میں کہا تھا کہ حلف نامے میں غلط جانکاری پر نامزدگی رد ہوسکتی ہے۔ کانگریس اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔سیاسی حملے کے علاوہ اندرونی طور پر تیاری یہ بھی ہورہی ہے کہ معاملے کو کورٹ میں لے جایا جائے۔کون اور کب کورٹ میں لے کر جائے اس پر کئی جگہ چرچائیں ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اسمرتی ایرانی نے 2004ء کے چناؤ میں خود کو گریجویٹ بتانے کا 2014ء کے چناؤ میں گریجویشن فرسٹ ایئر بتانے کا ایفی ڈیوڈ دیکر دیش کو گمراہ دیا ہے ، دھوکہ دھڑی کی ہے۔ یہ جرم ہے؟ اسی اینگل کو لیکر کورٹ میں جانے پر کچھ لوگ وچار کررہے ہیں۔ دوسری جانب بی جے پی نیتاؤں کا کہنا ہے کہ پارٹی بھی یہ سب سونگھنے کی کوشش میں ہے۔آخر راہل گاندھی کے خلاف لڑنے اور برابری کی ٹکر دے کر پوری کانگریس کی نیند حرام کرنے والی نیتا کے خلاف کچھ نہ کچھ تو ہوگا ہی؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟