ڈپلومیسی یا ڈبل گیم ؟
امریکہ نے صرف دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان کی کھل کر تعریف کی ہے ۔بلکہ پاکستانی فوج کے چیف عاصم منیر کو امریکہ مدعو کیا ہے ۔اس سے ٹھیک پہلے عاصم منیر نے ایک بیان دیا تھا جسے بھارت نے جموں وکشمیر میں ہوئے ہوئے 22 اپریل کے آتنکی حملے سے جوڑ کر دیکھا گیا ۔دراصل آپریشن سندور کی شروعات کے ساتھ ہی یہ دیکھاجارہا ہے کہ پاکستان کو لے کر امریکہ کے ٹرمپ انتظامیہ کا رخ کچھ بدلا ہواہے ۔گزشتہ بدھوارکو یہ کافی واضح ہو گیا ہے کہ سرحد پر دہشت گردی کے اشور پر امریکہ کا رویہ بدلا ہوا ہے ۔پچھلے کچھ گھنٹوں میں امریکی حکومت نے تین سطحوں پر ایسے اشارے دیے ہیں جو بھارت کی پریشانیوں کو بڑھاتے ہیں۔پہلا امریکی فوج کے مرکزی کمانڈ کے چیف مائیکل کوریلا نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان ایک زبردست شریک کار ہے ۔14 جون کو امریکی سینا دیوس کی پریڈ میں پاکستانی فوج کے چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا ۔تیسرا وائٹ ہاو¿س نے اشارے دئیے ہیں کہ کشمیر کو لیکر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کرسکتے ہیں ۔امریکی سینٹ کام کے چیف جنرل مائیکل کریلا نے امریکی سرکار کے قانونی باڈی کمیٹی آن آرمڈ سروس کی ایک سماعت میں کئی باتیں کہیں ہیں کہ ہمیں بھارت پاکستان دونوں کے ساتھ رشتہ بنا کر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ہم ایسا نظریہ نہیں رکھ سکتے ہیںکہ اگر بھارت کے ساتھ رشتے رکھنا ہے تو ہم پاکستان کے ساتھ نہیں رکھ سکتے ۔پاکستان کے ساتھ ہماری کافی زبردست ساجھیداری ہے ۔پاکستان نے آئی ایس خورستان کے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی ہے ۔او ر ہزاروں آتنکیوں کو مارا ہے ۔امریکہ کے ساتھ اطلاعات شیئر کی ہیں اور بڑے آتنکیوں کو پکڑنے میں مدد کی ہے ۔سینٹ کام چیف نے عاصم منیر کا بھی ذکر کرتے ہوئے تعریف کی ہے کیسے سب سے پہلے انہوں نے شریف اللہ کی گرفتاری کی اطلاع ان کو دی ۔انہوںنے پاکستان سرکار کی اس دلیل پر مہرلگائی کہ دہشت گردی کیخلاف لڑائی جو لمبے عرصہ سے لڑی جارہی ہے اس میں بھی وہ متاثر ہوا ہے ۔یہ بیان اس بیان کے بعد ہی اطلاعات آئی کہ پاکستانی فوفی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو امریکی فوجی تقریب میں مدعو کیا گیا ہے۔یہ تقریب 14 جون یعنی آج ہے ۔یہ وہی منیر ہیں جنہوںنے 16 اپریل کو اسلام آباد میں ایک تقریر میں کشمیر کو پاکستان کو اپنی اپنی لائیف لائن بتایا تھا ۔انہوں نے ٹو نیشن تھیوری کی بھی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے بچوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ وہ ہندوو¿ں سے الگ ہیں اور منیر کے اس بھڑکاو¿ بیان کے بعد ہی 22 اپریل کو بیسرن پہلگام میں آٹنکی حملہ ہوا جس میں 26 بے قصور سیاح شہید ہو گئے تھے ۔آخر امریکہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟ عاصم منیر جیسے متنازعہ شخص کو بلانا بھارت کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے ۔حالانکہ آ ج بھارت عالمی طور پر سرخیوں پر ہے ۔ایک نظریہ ہے کہ امریکہ کا عاصم منیر کو بلانا اور پاکستان کو غیر متوقع کے طور پر ساجھیدار کہنا بھلے ہی حکمت عملی ہوسکتی ہے لیکن بھارت کے لئے یہ صاف اشارہ ہے کہ واشنگٹن اب اس خطہ میں توازن بنا کر چلنا چاہتا ہے اس سے بھارت کی نوتھرڈ پارٹی پالیسی کو چنوتی ملتی ہے ۔حالانکہ دونوںملکوں سے رشتے بنائے رکھنا امریکہ کی پرانی پالیسی رہی ہے ۔پھر بھی یہ قدم ڈپلومیٹک طور سے بھارت کے لئے پریشانی کا باعث ضرور ہے ۔ٹینشن نہیں لیکن چوکسی ضروری ہے ۔امریکہ کی منشاءاور نظریہ پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں ۔فیلڈ یعنی فیلڈ مارشل منیر کے بیان پہلگام آتنکی حملے سے جڑا ہے ۔اس لئے سوال یہ اٹھتا ہے کہ صرف امریکہ کی یہ ڈپلومیسی ہے یا ڈبل گیم ؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں