پاک کو الگ تھلگ کرنے میں ہم ناکام رہے !
آپریشن سندور کے دوران گزری 9 مئی کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے (آئی ایم ایف ) نے پاکستان کو بیل آو¿ٹ پیکج کی شکل میں ایک ارب ڈالر کی قسط کی منظوری دے دی ۔آپریشن سندور کے ٹھیک بعد ورلڈ بینک نے پاکستان کو 40 بلین ڈالر دینے کا فیصلہ لیا ۔۔۔پھر ایشین ڈولپمنٹ بینک نے پاکستان کو 800 ملین ڈالر دے دیے ۔کچھ دن پہلے 4 جون کو پاکستان کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی طالبان پر پابندی کمیٹی کے چیئرمین اور دہشت گردی انسداد کمیٹی کے وائس چیئرمین چنا گیا ۔پاکستان کے سلسلے میں ہوئی سبھی ڈولپمنٹ کو کانگریس نیتا پون کھیڑا نے سامنے رکھا ہے ۔اور بھارت کی خارجہ پالیسی کے زوال سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے عالمی برادری پر بھی سوال کھڑے کئے ہیں ۔پاکستان ان معاملوں کو ایک بڑی کامیابی کی شکل میں پیش کررہا ہے ۔پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا میں ان کے دیش کے لئے یہ فخر کی بات ہے ۔انہوںنے ایکس پر کئے ایک پوسٹ میں لکھا ہے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل میں اہم ترین تقرریاں بھی متاثر کرتی ہیں ۔اور عالمی برادری کو پاکستان کی دہشت گردی مخالف کوششوں پر پورا بھروسہ ہے ۔شریف کا کہنا ہے پاکستان ان دیشوں میں سے ایک ہے اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔دہشت گردی کے سبب اب تک دیش میں 90 ہزار لوگوں کی جان جاچکی ہے ۔دیش کو 150 بلین ڈالر سے زیادہ کا اقتصادی نقصان ہو چکا ہے ۔بھارت نے اسے لے کر خاصہ اعتراض جتایا ہے جموں وکشمیر کے پہلگام میں گزری 22 اپریل کو بے قصور سیاحوں پر ہوئے حملے کے لئے پاکستان ذمہ دار ہے ۔اس سے پہلے بھی الگ الگ محاذوں پر 2016 میں اری میں ہمارے فوجیوں پر حملہ ،2019 میں پلوامہ ،اور پھر 2008 میں ممبئی کے ہوٹلوں پر حملے یہ سب ثابت کرتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے پاکستان ہے ۔ان کی فوج اور خفیہ ایجنسی ان میں آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے ۔آپریشن سندور بھارت کو مجبوری میں کرنا پڑا ۔3-4 دن کی لڑائی کے بعد ہندوستانی ممبران پارلیمنٹ کے ایم پیز کو سات الگ الگ نمائندہ وفد نے اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے ممبر ملکوں کا دورہ کیا ۔پی آئی بی کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق اس دورہ کا مقصد آپریشن سندور اور سرحد پار دہشت گردی کے خلاف بھارت کی مسلسل لڑائی کے بارے میں ممبر ممالک کو واقف کرانا تھا جہاں ایک طرف اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے ممبران کے سامنے سرحد پار سے دہشت گردی کا مدعا اٹھا کر پاکستان کو گھیرنے کی کوشش میں سرکار جٹارہی تھی ۔وہیں پاکستان کو اس اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے دہشت گردی انسداد کمیٹی کا وائس چیئرمین مقرر کیا گیا ۔انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے ڈپلومیٹک ایڈیٹر سبھاجیت رائے نے لکھا ہے کہ شاید انہیں اسباب سے بھارت میں عجب بے چینی کے حالات نظر آرہے ہیں ۔راجستھان کے پولیس سیکورٹی اینڈ کریمنل جسٹس کے انٹرنیشنل افیئرس کے اسسٹنٹ پروفیسر ونے کوڈہ کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے دیش کو اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل جیسے ادارے میں کوئی بھی جگہ یا ذمہ داری دینا صرف ڈپلومیٹک سیاسی حساسیت نہیں بلکہ اس پورے ڈھانچہ کی خامی کو اجاگر کرتا ہے ۔پاکستان کو ان ایجنسیوں کا حصہ بنانا اسی دیش کو دہشت گردی پر نگرانی کی ذمہ داری سونپنے جیسا ہے ۔جس پر خود دہشت گردی کو پناہ دینے اس کو پیدا کرنے اور اسے خارجہ پالیسی کے ہتھیار کی شکل میں استعمال کرنے کے سنگین الزام ہیں ۔یہ بھارت کے لئے ہی نہیں بلکہ عالمی دہشت گردی انسداد ڈھانچہ کے بھروسہ کے لئے بھی ایک تشویش کا موضوع ہے ۔پاکستان کی دہشت گردی پر دوہری پالیسی کوئی نیا اشو نہیں ہے یہ تاریخی حقائق اور بین الاقوامی دستاویزوں میں صاف طور سے بھی درج ہے چاہے وہ اقوام متحدہ کے ذریعے ممنوعہ دہشت گردوں کو پناہ دینا ہو جیسے اسامہ بلادین یا حافظ سعید یا پھر لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں کو کھلی حمایت دینا ہو۔پاکستان نے مسلسل دہشت گردی کو اپنی سرکاری پالیسی کا ایک ہتھیار بنایا ہے ۔خاص طور سے بھارت کیخلاف جے این یو میں اسسٹنٹ پروفیسر نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا کہ یہ خبر بھارت کے لئے تشویش پیدا کرنے والی ہے ۔ایسی تقرریاں اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے مستقل نمائندہ ملکوں کی طرف سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد ہی ہوتی ہے ۔اور ہری جھنڈی کا مطلب ہے یہ اعتراف کرنا تھا پاکستان دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ہماری کوشش رہی ہے دہشت گردی پھیلانے میں پاکستان کا بڑا رول رہا ہے لیکن بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر ایسا شاید نہیں مانتے جہاں اقوام متحدہ کے ذریعے پاکستان کو سرٹیفکیٹ دینا اس کا بڑا کارنامہ رہا ہے وہیں یہ بھارت کی بڑی ناکامی مانی جائے گی کہ ہمارے دیش کی خارجہ پالیسی ایک بار پھر ناکارہ ثابت ہوئی ہے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں