سرکار کسی کے کندھے پر بندوق نہیں رکھ سکتی !

ایک جمہوری نظام میں کسی معاملے پر احتجاج کرنے کا حق سب کو آئین دیتاہے ۔لیکن کیا ایک اختیار سے دوسرے حقوق کی خلاف ورزی کرنا کہاں تک مناسب ہے دہلی کے شاہین باغ میں شہری ترمیم قانون کے احتجاج میں 100دن چلے دھرنے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیاہے وہ اہم ترین ہے ہی پبلک پلیس پر دھرنا مظاہرے کرنے کے خلاف بڑی عدالت کا یہ فیصلہ مستقبل میں نظیر بھی بنے گا سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہمارا آئین احتجاجی مظاہروں کو حق دیتاہے لیکن سی اے اے کی آڑ لیکر پبلک جگہوں پر بے میعادی قبضہ نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح کا احتجاج کسی طرح بھی قبول نہیں ہے ایسے معاملوں میں اب کسی حکم کی کوئی ضرورت نہیں انتظامیہ خود کاروائی کر سکتاہے ۔ امید ہے کہ مستقبل میں ایسے حالات دوبارہ نہ پیدا ہونگے جسٹس کول نے مقامی انتظامیہ اور سرکار بھی بڑی پھٹکار لگائی سرکار انتظامیہ کو فیصلہ لینے کے لئے انتظار نہیں کرنا چاہئے اورنہ ہی عدالت کے کندھے پر بندوق رکھنی چاہئے ۔ شاہین باغ معاملے میں بھی سرکار نے کورٹ کے کندھے پر بندوق رکھنے جیسا کام کیا تھا اور اب یہ انہیں خود دیکھنا ہے کہ عدالت یہ دیکھتی ہے کہ انتظامیہ کی کاروائی ٹھیک ہے یا نہیں دراصل سی اے اے کے خلاف پچھلے سال 15دسمبر کو ساو¿تھ ایسٹ دہلی کے شاہین باغ میں عورتوں کے دھرنے پر بیٹھنے سے آس پاس کے لوگوں کو بہت پریشانی ہوئی تھی کیونکہ نوئڈا وغیر اور فریدآباد سے آنے والے لوگوں کو سڑک بلاک کرکے روک دیا گیا تھا ۔ بازار بند ہوجانے سے تاجروں اور خریداروں کو نقصان اٹھا نا پڑ رہا تھا اب آخر کار کورونا کے سبب دفعہ 144لاگو ہوتے ہی 23مارچ کو مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹادیا گیا فیصلے میں عدالت نے دہلی پولس کی ٹالم ٹولی کےلئے بھی تلخ نقظہ چینی کی ہے ہائی کورٹ کی ہدایت کے باجود سڑک پر قبضہ ہٹانے کی کوشش نہیں کی ۔بہر حال اس کے پیچھے دہلی کے چناو¿میں ووٹروں کا پولرائیجیشن کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے پر شبہہ ظاہر کیا گیا جو پورہ نہیں ہوسکا۔ یقینی طور سے جمہوری طریقے سے مظاہرہ کرنے کا حق ہے لیکن یہ اختیا ر بھی تبھی مضبوط ہوتا ہے جب شہریوں کے حقوق پر جب کوئی چوٹ نہیں پہونچتی ۔عدالت نے دو ٹوک کہا کہ حکام کو کاروائی کرنی ہوگی وہ عدالت کے پیچھے چھپ نہیں سکتے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟