مذمت کرنا ملکی بغاوت نہیںہے !

ٹول پلازہ پر پیر کی شام سوفٹ کار میں پکڑے گئے چار لوگوں کو پولس نے ہاتھرس جاکر ماحول بگاڑنے کی کوشش میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے پولس کا دعوی ہے کہ ہاتھررس جارہے ان لوگوں کے پاس استعال پھیلانے والے کتابچہ بھی ملا ہے ان کا تعلق پاپلر فرنٹ آف انڈیا ،کیمپس فرنٹ آف انڈیا سے ہے یہ بات منگل کو چاروں سے پوچھ تاچھ کے دوران سامنے آئی ہے ۔ ان کو نقض امن کے اندیشے میں گرفتار کیاگیاہے عدالت میں پیش کیاگیا جہاں ان کو 14دن کےلئے عدالتی حراست میں جیل بھیجا گیا گرفتار لوگوں میں صدیق ہے جو کیرل کا پترکار ہے اسے ہاتھرس جاتے وقت یوپی پولس کے ذریعے گرفتار کئے جانے کے خلاف کیرل جنرلسٹ یونین نے سپریم کورٹ میں قیدمیں رکھنے کے خلاف عرضی دائر کر رہا کرنے کی مانگ کی اور کہا کہ گرفتاری قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک صحا فی کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کے محذ ڈالنے کے ارادے سے کی گئی ہے رشتہ داروں کو کپن صدیق کی گرفتاری کے بارے میں خبر تک نہیں دی گئی یہ پترکار یونین کا سکریٹری بھی ہے کئی دہائیوں پہلے کی بات ہے ایک مشہور میگزین میں ایک کارٹو ن چھاپاتھا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم ایک چھوٹے سے اجاڑ گاو¿ں میں بھوک مری سے بے حال چند غریب لوگوں سے کہہ رہی تھی کہ کچھ غیر ملکی طاقتیں ہماری خوشحالی اور ترکی سے جل رہی ہیں ۔ اترپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ نے 50سال بعد وہی جملہ دہراتے ہوئے کہا کہ پردیش میں ہورہی ترقی کو برداشت نا کرنے والی کچھ طاقتیں ذات پرست تشدد بھڑکانا چاہتی ہیں ۔بھرم گیان اتساہی پولس آفسروں کے لئے کافی تھا ہاتھرس کی دلت لڑکی کے ساتھ بد فعلی اور قتل کو لیکر سیاسی ورکروں مقامی لیڈروں پر نسلی تشدد بھڑکانے سرکار کو بد نام کرنے کی دفعات میں مقدمے درج کر دیئے ۔شاید سرکار کے چیف کو معلوم نہیں کہ اگر سرکار کسی دلت لڑکی کی حفاظت نہیں کرپاتی اور اس کی لاس کو رات کے اندھیرے میں پورے گاو¿ں کو دہشت میں ڈال کر جلادیتی ہے جو ناراضگی پھیلنا سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ بیدار جنتا کا سرکار کے اس پر سرکار کے خلاف ہونا عام جمہوری رد عمل ہونا فطری ہے ۔ موجودہ سرکار بھی اسی بنیاد پر اکھیلیش سرکار کو ہرا کر اقتدار میں آئی تھی ۔ جاہل آفسروں کو نئے قانون تو چھوڑئے آئین کا بھی پتہ نہیں ایک سینئر آفسر نے بتایا آبروریزی نہیں ہوئی کیونکہ ایف ایس ایل رپورٹ میں تصدیق نہیں ہوئی اسے2006کے بعد بدلے قانون کے بارے میں علم نہیں تھا اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا ملک کی بغاوت کی دفعہ 24اے اور کسی بھی سرکار کے خلاف ناراضگی پیدا کرنے پر اس کے خلاف مظاہرہ یا شوشل میڈیا پر لکھنے پر لگتی تو دیش کی پارلیمنٹ سے لیکر میڈیا تک ملک دشمن ہونا چاہئے کیونکہ رپورٹ پر یہ حالت بنی شاید نہرو آج ہوتے تو انہیں آج لگتا کہ آئین بننے کے بعد ترمیم کے ذریعے دفعہ 19(2)کے تقاضوں میں عوامی نظام لفظ شامل کر ریاست کو کافی اختیارات دیتا آج کتنا مہنگا پڑ سکتاہے اقتدار کے نشے میں بھاجپا بھی شاید ربھول گئی ہے کہ راستہ دکھانے کے بعد کل وہ بھی اپوزیشن میں آ سکتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟