آتنک وادبھرتی اسکول چلانے والے فصیح محمود کون ہیں؟

ابو جندال کے قابو آنے کے بعد اب ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں کی نظریں 28 سالہ فصیح محمود پر لگی ہوئی ہیں۔ یہ فصیح محمود کون ہیں؟ فصیح محمود اس دہشت گرد کا نام ہے جو سعودی عرب میں بیٹھ کر جہاد کے نام پر دہشت گردی کیلئے باقاعدہ آن لائن بھرتی مرکز چلا رہا تھا۔ فصیح محمود بنیادی طور سے بہار کے دربھنگہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا خاندان ایک ہائی پروفائل خاندان مانا جاتا ہے جس میں انجینئر، پرنسپل، لیکچرار اور ڈاکٹر ہیں۔ فصیح محمود کے پردادا محمد خلیل احمد بڑسمولا کے جانے مانے زمیندار تھے۔ آزادی کی لڑائی میں بھی انہوں نے حصہ لیا تھا۔ فصیح محمود نے ابتدائی تعلیم علیگڑھ سے حاصل کی تھی اس کے بعد دربھنگہ میں واقع ملت کالج سے انٹر میڈیٹ پاس کیا۔ مکینکل انجینئرنگ ڈگری حاصل کرنے کیلئے وہ انجمن انجینئرنگ کالج بھٹکل چلا گیا۔ فصیح کی ماں عطا جمال دربھنگہ ہائی سکول میں پرنسپل ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ممبئی میں نوکری کرنے کے بعد فصیح سعودی عرب 2007 میں چلا گیا تھا۔ سعودی عرب میں فصیح نوجوانوں میں اسلام کی تبلیغ کرکے ہندوستان اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف جہاد کے لئے آن لائن بھرتی کیا کرتا تھا۔ لیکن امریکی خفیہ ایجنسیوں کی نظر سے اس کا آن لائن ٹیرر بھرتی اسکول بچ نہ سکا۔ فصیح محمود کے خلاف مئی میں انٹرپول نے ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا۔ اسی کڑی میں13 مئی کی آدھی رات کوقریب ڈیڑھ بجے سعودی عرب کے ایک علاقے میں واقع گھر پر چھاپہ مار کر پولیس نے حراست میں لیا۔ اپریل2010ء میں چننا سامی اسٹیڈیم میں دھماکے اور 2010ء میں ہیں دہلی کی جامع مسجد میں فائرننگ کے پیچھے فصیح محمود کی سازش سامنے آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب پولیس سے حوالگی کرکے بھارت لانے کیلئے سبھی ضروری خانہ پوری کی گئی ہیں۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں فصیح محمود کو دہلی لایا جائے گا۔ سی بی آئی سے وابستہ ذرائع کی مانیں تو پہلے قصاب پھر ابو جندال اور اب فصیح محمود کا پکڑا جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔ تینوں سے پوچھ تاچھ اور جانچ پڑتال کے بعد پورے نیٹورک کا خلاصہ ممکن ہے۔دنیا میں پھیل رہے آتنک واد کی کڑیاں جو پاکستانی آئی ایس آئی اور لشکر چیف حافظ سعید سے سیدھی جڑتی ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے سعودی عرب کے نظریئے میں تبدیلی آئی ہے۔ پہلے ابوجندال اب فصیح محمود کی سعودی عرب میں گرفتاری کافی اہم مانی جارہی ہے۔ سعودیہ کے نقطہ نظر میں امریکی دباؤ سے تو کافی فرق آیا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کی اپنی مجبوریاں بھی ہیں۔ دراصل سعودی عرب بھی اپنے ملک میں القاعدہ کی بڑھتی سرگرمیوں سے فکر مند ہورہا ہے۔ ابوجندال کو یوں ہی نہیں بھارت سونپا گیا بلکہ القاعدہ اور لشکر طیبہ مل کر سعودی شاہی خاندان پر اب سیدھے حملے کرنے لگے ہیں۔نئی دہلی نے وقتاً فوقتاً سعودی حکومت کو ان جہادیوں کی بڑھتی سرگرمیوں سے چوکس کیا ہے۔27 اگست2009ء کو سعودی عرب کے نائب وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف اسعود پر ان کے گھر پر ایک خودکش حملہ آور نے انہیں جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔27 سالہ یہ خودکش حملہ آور سعودی شہری تھا۔ یمن میں جہادی ٹریننگ دی گئی تھی۔2007ء میں اسے پاکستانی جہادیوں نے دہشت کے سبھی طور طریقوں سے واقف کرایا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو شہزادے کے گھر میں اڑا لیا تھا لیکن شہزادہ اوپر والے کمرے میں تھا جو بچ گیا اور اسے چھوٹی موٹی چوٹیں آئیں۔ نئی دہلی نے خفیہ افسر سعودی شہزادہ مکرم بن عبدالعزیز اسعود جو سعودی خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں ، سے لگاتار رابطے میں ہیں۔ سعودی القاعدہ اور لشکر کی اس دیش میں بڑھتی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پریشان ہے۔ یمن پچھلے کچھ دنوں سے پڑوس میں ہی آتنک واد کا اڈہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ابھی سعودی عرب پاکستان پر سیدھا ہاتھ تو نہیں ڈال پا رہا ہے لیکن اس نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے دیش سے لشکر اور القاعدہ کے جہادیوں پر سخت کارروائی ضرور کرے گا ۔ اس لئے پہلے ابو جندال اور اب فصیح محمود کو بھارت لانے کی تیاری جاری ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟