پردھان منتری جی! اب تو آپ کے پاس کوئی بہانہ بھی نہیں ہے

شری پرنب مکھرجی کو وزیر خزانہ سے ہٹا کر صدارتی عہدے تک پہنچانے کی کوشش کے پیچھے ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ پرنب دا کے کام کاج سے خوش نہیں تھے۔ وزیر اعظم کچھ حد تک دیش کی خراب اقتصادی حالت کے لئے وزارت مالیات کو ذمہ دار مانتے تھے۔ تبھی پرنب کو ہٹانے کیلئے ڈاکٹر منموہن سنگھ بہت خواہشمند تھے۔وہ کامیاب بھی ہوئے۔ اب پرنب دا وزیر خزانہ بھی نہیں ہیں اور منموہن سنگھ نے وزارت مالیات خود سنبھال رکھی ہے۔ اب ڈاکٹر سنگھ کے پاس کوئی بہانہ نہ بچتا اور انہیں دیش کی اقتصادی گراوٹ کو روکنے میں اہم کردار نبھانا چاہئے۔ وہ اپنی پرانی ٹیم کو بھی ساتھ لانے میں کامیاب رہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے وزارت مالیات کا عہدہ لینے کے پہلے ہی دن پلاننگ کمیشن کے چیئرمین مونٹیک سنگھ اہلووالیہ، وزیر اعظم کے اقتصادی مشیر کونسل کے چیئرمین سی رنگا راجن اور وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری تلک چٹرجی کے ساتھ اقتصادی حالت پر غور وخوض کیا اور اس میں گراوٹ ،بڑھتی مہنگائی اور سرمایہ کاری کو مضبوط کرنے پر بھی غور و خوض کیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے وزارت مالیات کے چیف اقتصادی مشیر کوشک بسو ،فائننس سکریٹری آر ایس گجرال، اقتصادی امور محکمے کے سکریٹری آر گوپالن سے بھی ان اشوز پر تبادلہ خیالات کئے۔ وزیر اعظم کے لئے وزارت مالیات کی ذمہ داری سنبھالنے کے پہلے تین دنوں میں ہی جس طرح سینسیکس ساڑھے پانچ سو پوائنٹ پر چڑھا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ہندوستانی بازوں میں واپسی ہوئی ہے ا س سے یہ سوال اٹھنا فطری ہے کیا پچھلے ایک ڈیڑھ سالوں سے ہندوستانی معیشت پر چھائے برے دن اب دور ہونے والے ہیں؟ ہماری معیشت کافی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ مالی خسارہ ، چالو کھاتا اورافراط زر اور صنعتی ترقی شرح جیسے اقتصادی نمبروں کا موازنہ جس طرح بار بار1991ء سے کیا جارہا ہے اس سے لگتا ہے کہ اور چیزوں سے زیادہ سوال ابھی خود منموہن سنگھ پر ہے۔جس نئی ہندوستانی معیشت کی بنیاد خود منموہن سنگھ نے 1991 میں رکھی تھی اب ان کے سامنے سب سے بڑی چنوتی بن کر کھڑی ہے۔ اتحادی پارٹیوں کے دباؤ میں اکثر یوپی اے ۔II سرکار وہ ضروری قدم نہیں اٹھا پاتی جو وقت کے حساب سے ضروری ہیں۔ کیا منموہن سنگھ نے اس مسئلے کا بھی کوئی حل تلاش کیا ہے؟ سست پڑی معیشت میں فیل گڈ کا تڑکا لگانے کے بعد وزارت مالیات کا کام کاج سنبھال رہے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی نظر اب دیش کے خستہ حال خزانے پر پڑنی چاہئے۔جس طرح سے خسارہ بڑھ رہا ہے یہ ایک بڑی چنوتی ہے۔ سبسڈی کی وجہ سے بڑھ رہا سرکاری خرچ مختلف فضول خرچی اور سیاسی اسکیمیں ان پر قابو پانے کے اقدام وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ڈھونڈنے ہوں گے۔ صنعتی رفتار کیسے بڑھائی جائے، دیش میں آئی مندی اور مایوسی دونوں کو کیسے دور کیا جائے، منموہن سنگھ کے لئے یہ امتحان سے کم نہیں ہیں۔ پورا دیش ان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اب تو منموہن سنگھ بھی یہ بہانہ نہیں بنا سکتے کہ ان کے کام اور پالیسیوں میں کوئی رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی کا پورا ہاتھ منموہن سنگھ پر ہے اس لئے اب تو وہ یہ ثابت کریں کہ وہ واقعی ایک ماہر اقتصادیات ہیں جن کا لوہا بھارت سمیت دنیا مانتی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟