بھگوان کی برابری کرنے والا یہ بڑا تجربہ کتنا بھروسے مند ہے؟

قدیم زمانے سے انسان کی جستجو رہی ہے کہ آخر یہ برہمانڈ یعنی (کائنات) کیا ہے۔ کیسے یہ دنیا بسی؟ ویدک اور قدیم زمانے میں ہی ہندوستانی رشیوں اور منیوں نے جنگلوں اور پہاڑوں میں رہ کر آسمان میں سیاروں ،تاروں کی چال اور ان کی بناوٹ اور زمین پرپڑنے والے ان کے اثرات پر انگنت تجربے کئے ہیں۔ یہ کسی تعجب سے کم نہیں کہ نکشتروں ،تاروں کی رفتار، آکاش گنگا جیسے معموں کی صورتحال، سورج ۔چاند کی رفتار اور دوری اور اسکی بنیاد پر رات اور دن، مہینے اور سال کا تعین بھی اتنے ہی نپے تلے طریقے سے کیا گیا جتنا آج اربوں ڈالر سے تیار ناسا کی لیباریٹریاں کرتی ہیں۔ پچھلے چار برسوں میں ایک بڑا تجربہ شروع کیا گیا۔ گارڈ پارٹیکل کی تلاش کیلئے زمین کے 100 میٹر اندر ایک گولائی والی سرنگ کی شکل میں ایک مشین جس کا دائرہ تقریباً 27 کلو میٹر لمبا ہے، اس میں پروٹین ذرات کی رفتار کنٹرول کرنے کے لئے بڑے بڑے سائز کے 9 ہزار سے زیادہ چمبک لگے ہوئے ہیں، کا استعمال چل رہا ہے۔ اس گولائی والے خاص حصے کے بڑے پڑاؤ پر لاکھوں کل پرزے والی الگ الگ مشینیں لگائی گئی ہیں۔ اس بڑی مشین کے نام میں ہیڈرون اس لئے لگایا گیا کہ اس کے ذریعے نابھکئے ذرات کی ٹکر کرائی جائے گی۔ کوارک نامی شے سے تیار یوٹران اور پروٹین جیسے ذرات کو ہیڈرون کہا جاتا ہے۔ اس کولائڈر مشین کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ٹکرانے والا۔ اسے جو کام سونپا گیا ہے وہ ہے پروٹین ذرات کی آپس میں تقریباً روشنی کی رفتار سے ٹکرانا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اس پارٹیکل (ذرہ) کی تلاش کرلی ہے جو اس کائنات کو شکل دینے کے لئے ایک جز مانا گیا ہے۔ یوروپین سینٹر فار نیوکلیئر ریسرچ نے بدھ کو کہا جو پارٹیکل ہم نے پایا ہے وہ ہگس بوسون کے پیمانے کے مطابق ہے کیونکہ یہ ایک سائنسی تجربہ ہے جسے سمجھنا آسان نہیں(کم سے کم میرے لئے تو)اس لئے عام آدمی کی زبان میں بتاتا ہو۔کائنات کی ہر چیز تارے، سیارے اور ہم بھی ۔ میٹر یعنی اشیاء سے بنے ہیں۔ میٹرعوامل اور نیوکلیائی سے بنے ہیں۔وسیع تجربے سے عوامل اور توانائی جیسے تمام ذرات کو ٹھوس شکل ملتی ہے۔ اگر یہ ماس نہیں ہے تو ذرہ ،روشنی کی رفتار سے بھاگتے رہیں گے اور ٹھوس شکل میں نہیں بدل سکیں گے۔سوال اٹھا کہ یہ ماس آتا کہاں سے ہے؟ تمام ذرات کو ایک سسٹم اسٹینڈرڈ ماڈل آف پارٹیکل میں رکھ کر جواب دینے کی کوشش کی گئی تو گود نظر آنے لگے۔اس کے وجود میں آنے کی وجہ بتانے کے لئے1965ء میں برطانوی سائنسداں پٹر ہگس نے ہگز بوسون یا گارڈ پارٹیکل کا نظریہ پیش کیا۔ ہگز کی تھیوری کے مطابق تقریباً13.7 ارب سال پہلے ایک بڑا دھماکہ (بگ بینگ) کے بعد ہگز بوسون پارٹیکل نے کائنات کی سبھی چیزوں کو شکل دینے میں اہم کردار نبھایا۔ ہگز کی تھیوری میں بوسون ایسا بنیادی ذرہ تھا جس کی ایک فیلڈ تھی۔جو دنیا میں ہر کہیں موجود تھا۔ جب کوئی دوسرا ذرہ اس فیلڈ سے گذرتا ہے تو رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کوئی بھی چیز پانی، ہوا سے گزرتے ہوئے کرتی ہے۔ جتنی زیادہ رکاوٹ اتنی زیادہ ماس (ہگز)بوسون کے سہارے اسٹینڈرڈ ماڈل مضبوط ہورہا تھا۔ لیکن اس کے ہونے کا ایک تجرباتی ثبوت چاہئے تھا۔ ہم جس یونیورس (برہمانڈ) میں رہتے ہیں اس کو شکل کس نے دی؟اس سوال کے جواب میں سائنسدانوں نے بدھوار کوکہا تخلیق کرنے والے جس گارڈ پارٹیکل کی تلاش تھی ان خوبیوں والا ایک پارٹیکل ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہوتا ہے تو یقینی طور سے سائنس کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ سائنس کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ وہ بغیر پختہ تجربے کا نتیجہ دیکھے اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سائنس اور مذہب میں مانیتا میں اکثر ٹکراؤ رہا ہے۔ لوگوں کی عقیدت سائنس کی باتوں کو نہیں مانتی۔ ایک طرح سے بڑا تجربہ بھگوان کی کھوج کرنے کا دعوی کرتا ہے۔ اس نتیجے پر عام آدمی کو کتنا بھروسہ ہوگا اس میں ہمیں شبہ ہے۔ بھگوان کا وجود آدمی نہیں پا سکتا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟