طالبان، القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ بھارت

نیو ریسرچ سینٹر کی گلوبل ایٹیٹیوٹس پروجیکٹ نے پاکستان نے ایک سروے کیا ہے۔جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 10 میں سے صرف4شہری ہی بھارت کو اپنے لئے فائدے مند مانتے ہیں۔ وہیں اکثریت یعنی ہر 10 میں سے6 پاکستانی بھارت کو اپنے دیش کے لئے طالبان یا القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ مانتے ہیں۔اس میںیہ بھی پتہ چلا ہے کہ سال2009ء میں جب پہلی بار پاکستانیوں سے ان کے سب سے بڑے خطرے کا سوال کیا تب وہ اسکے لئے مسلسل بھارت کا نام لیتے رہے ہیں۔ تب سے بھارت سے ڈرنے والوں کی تعداد11 سے بڑھ کر 59 فیصدی ہوگئی ہے۔ دوسری طرف طالبان کو سب سے بڑا خطرہ بتانے والوں کی شرح فیصد 9 پوائنٹ کم ہوگئی ہے۔ سروے کے مطابق بھارت اکیلا ایسا ملک نہیں ہے جہاں پاکستان کے تئیں منفی نظریہ ہے۔ جن 7 ملکوں میں یہ سوال پوچھا گیا ان میں سے6 میں پاکستان کے تئیں منفی رائے دیکھی گئی۔ چین جاپان اور مسلم اکثریتی مصر اور یردن اور تیونس میں یہ سوال پوچھا گیا۔ اس سروے کے نتیجوں پر تعجب نہیں ہوا۔ پاکستان میں چھوٹے بچوں کو ہی بھارت سے نفرت سکھائی جاتی ہے۔ جس کی تجدید ایک پاکستانی دانشور نے بھی کی ہے۔ پاکستان کے نامی گرامی دانشور نے اپنے ملک کے اسکولوں میں پڑھائی جارہی کتابوں کے ذریعے کچھ چونکانے والی باتیں دنیا کے سامنے رکھی ہیں۔ نیوکلیئر سائنس داں اور تازہ اشوز پر لکھنے والے ودود بھائی نے کہا کہ پاکستان کے اسکولوں میں بچوں کے ذہن میں کٹر پسندی اور بھارت مخالف نظریات کو دماغ میں ڈالا جارہا ہے اس سے ایک طرف پاکستان میں کٹر پسندی کو مضبوطی مل رہی ہے دوسری طرف بھارت کے تئیں نفرت بڑھی ہے۔ودود بھائی نے برطانیہ کے کنگس کالج میں ایک سیمینار کے دوران آتنک واد سے لڑائی میں استاد کے کردار سے وابستہ مثالیں پیش کی ہیں۔ ودود بھائی نے ایک ابتدائی تعلیمی نصاب کی کتابوں میں شائع تصویریں اور اسباق پیش کی ہیں۔اس میں اسے اللہ اور ب سے بندوق ٹ سے ٹکراؤ ج سے جہاد ح سے حجاب،خ سے خنجر اور ج جنگجو پڑھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں درجہ پانچ میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں سے بھی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق سمجھنا اور پاکستان کی ضرورت اور پاکستان کے خلاف بھارت کے ناپاک ارادے اور شہادت اور جہاد پر تقریریں تیار کرنے جیسے موضوعات شامل ہیں۔ دانشور نے کہا گذشتہ 60 برسوں میں پاکستان میں بڑی تبدیلی آئی ہے ۔ جنرل ضیا ء الحق نے ملک کی تعلیم میں جو زہر گھولا اس کے بعد کی حکومتوں نے اس کو دور نہیں کیا۔ کراچی میں گذارے اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا یہ شہر ہندوؤں، پارسیوں اور عیسائیوں کا شہر کہا جاتا تھا۔وہ سبھی چلے گئے ہیں۔ ودود بھائی نے اس حالت کے لئے مدرسوں کو جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا اور افسوس ظاہر کیا کہ مشرف کے عہد کے دوران اصلاحتی پروگرام شروع کئے گئے اور ان کی کوششوں سے بھی ان لعنتوں کو دور نہیں کیا جاسکا۔ودود بھائی کی باتوں پر ہمیں یقین نہیں ہوا۔ یوں ہی نہیں پاکستانی بھارت سے نفرت کرتے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟