غریب آدمی کو بیماری ہونا مصیبت سے کم نہیں

بھارت میں اگر کسی غریب آدمی کو بیماری ہوجائے تو سمجھو اس پر تو آفت ہی آگئی۔ بیماری کا علاج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ وہ اس کی حیثیت سے باہر ہوتا ہے۔ غریب آدمی کیسے اپنا علاج کروائی۔ دہلی کی بات کریں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ دہلی کے غریب مریض آخر کہاں جائیں؟ سرکاری ہسپتالوں میں مہینوں۔سالوں کی ڈیٹ مل رہی ہے۔سرکار سے سستی دام پر زمین لینے والے یہ پانچ ستارہ ہسپتال غریب کا علاج کرنے کوتیار نہیں۔ سرکار کا پی پی پی ماڈل برباد ہوچکا ہے اور سرکار کی قومی ہیلتھ بیما اسکیم فیل ہوچکی ہے۔ دہلی کی وزیر اعلی کھل کر پانچ ستارہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا موقف جب رکھتی ہیں تو دکھ ہوتا ہے کے غریب جنتا کے مفادات کی حفاظت کرنے والے سیاستدانوں کو غریبوں کی کتنا پرواہ ہے۔ سرکار سے سستے دام پر زمین حاصل کرنے اور غریبوں کا علاج نہ کرنے والے ہسپتالوں نے عدالتی حکم کے بعد کچھ لوگوں کے علاج کی شروعات کی ہے لیکن اس درمیان وزیراعلی کا کہنا ہے ان ہسپتالوں کا گلا اور کتنا دبایا جائے۔ حقیقت میں ان ہسپتالوں کو سرکار نے ایک روپے ایکڑ سے لیکر کچھ سو روپے ایکڑ کے حساب سے زمین صرف اس شرط پر دی تھی کہ وہ او پی ڈی، آئی پی ڈی میں غریب مریضوں کا علاج کریں گے۔ جس کے تحت آئی پی ڈی میں 10 فیصدی ،اوپی ڈی میں25فیصدی غریبوں کا علاج مفت کرنا تھا لیکن ہسپتال اس وعدے سے مکرتے رہے۔ آخر میں عدالت کے سخت فیصلے کے بعد انہوں نے علاج کرنا شروع کردیا ہے۔ سال2008ء میں شروع کردہ قومی ہیلتھ بیمہ اسکیم بند ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ بیمہ کمپنیوں کے ذریعے ہسپتالوں کو وقت پر پیسہ نہ دینے کے سبب ہسپتالوں نے غریب مریضوں کا علاج کرنے سے منع کردیا ہے۔ ہسپتالوں نے وزیر اعلی کو خط لکھ کر علاج نہ کرنے کے بارے میں واقف کرادیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے باوجود وزیر اعلی اس اسکیم کے فیل ہونے کا سبب جنتا کی بیداری میں کمی بتارہی ہیں۔ خیال رہے کہ راجدھانی میں 9 لاکھ بی پی ایل کارڈ ہولڈر ہیں۔ راجدھانی میں قریب40 ہسپتال اس اسکیم سے وابستہ ہیں۔ یہ ہسپتال غریبوں کا علاج کرتے ہیں جس کے عوض میں بیمہ کمپنیاں انہیں پیسے کی ادائیگی کرتی ہیں۔ بیمہ کمپنی کو سرکار کا محکمہ محنت پیسہ دیتا ہے۔ جانکاری کے مطابق محکمہ محنت نے تو بیمہ کمپنی کو پیسہ دے دیا ہے لیکن بیمہ کمپنی نے ہسپتالوں کو پیسہ نہیں دیا۔ قومی ہیلتھ بیمہ اسکیم کے چیئرمین ڈاکٹر پریم اگروال کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ہسپتالوں کو اسکیم کے تحت خرچ ہونے والی رقم ادا نہیں کی گئی۔ فی الحال28 اپریل سے اس اسکیم کے تحت علاج کرنے والے ہسپتالوں نے کھلے طور سے کارڈ ہولڈروں کو بھرتی کرنے سے منع کردیا ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے دہلی کا غریب مریض آخر کہاں جائے؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟