چین میں حکمراں کمیونسٹ کے راج میں کرپشن ،دمن اور سازشیں

چینی حکومت اپنے دیش کے اندر کیا ہورہا ہے اس کی بھنک تک نہیں لگنے دیتی۔ دنیا کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ چین کے اندر اصلی حالات کیا ہیں؟ کبھی کبھی ایسی خبریں باہر آجاتی ہیں جن سے اس ملک کے اند کے حالات کے بارے میں واقفیت مل جاتی ہے ۔چین میں کمیونسٹ پارٹی کا راج ہے۔ اس پارٹی کی سرکار کا نشہ اس حد تک پھیل گیا ہے کہ وہ اقتدار کا بیجا استعمال کرنے ،سیاسی سازش اور جرائم پیشہ افراد کا اڈہ بن گیا ہے۔ ان دنوں چین میں غنڈوں اور راکھشسوں دونوں کی پناہ گاہ امریکی سفارتخانے بن گئے ہیں۔ اس سال دو لوگوں کے ذریعے وہاں پناہ لینے سے دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات سامنے آئی ہے 21 ویں صدی کی ہونے والی بڑی طاقت کا اقتدار ایسے لوگوں کے طبقے کے ہاتھوں میں ہے جو کرپشن اور بھائی بھتیجہ واد کے ٹرینڈ میں ملوث ہیں۔ 6 فروری2012ء کونارتھ ویسٹ چین کے یونگیو شہر میں امریکی قونصل خانے میں ایک غیر متوقع مہمان نے دستک دی، یہ تھے یونگ کنگ کے خطرناک پولیس چیف بانگلی جون۔جرائم کو بے نقاب کرنے والے تیز طرار بانگ مبینہ طور پر چین کے بڑے لیڈروں کی بات چیت چوری چھپے سنا کرتے تھے۔ طویل عرصے تک بانگ کی سرپرستی چین کے سب سے کرشمائی سیاستداں بوجلائی تھے جنہیں حکمراں کمیونسٹ پارٹی کا ابھرتا ستارہ مانا جاتا تھا لیکن بانگ اور بو کے رشتوں میں دراڑ پڑ گئی۔ بانگ نے امریکی سفارتکاروں کو بو کے پراسرار کارناموں کے بارے میں سنسنی خیز معلومات دی تھیں۔ ان میں برٹش بزنس مین کونسل نیل ہیوڈ قتل میں بو کی گلیمرس بیوی یو کائی لائی کی ملی بھگت کا الزام سب سے دھماکہ خیزتھا۔ ہیوڈ نومبر میں یونگ کنگ میں مردہ پائے گئے تھے۔ اس قتل کا سبب تھا کہ اس انگریز نے شاید بو کے خاندان کے الٹے سیدھے طریقے سے کمائی گئی دولت کو بیرون ملک میں کھپانے کیلئے زیادہ حصہ مانگ لیا تھا۔ 27 اپریل کو بیجنگ میں نابینا وکیل یین گوآنگ یونگ بھاگ کر امریکی سفارتخانے میں آگئے۔ ٹائمس میگزین نے2006ء میں 100 سے زیادہ با اثر لوگوں میں گوانگ یونگ کو شامل کیا تھاوہ2010ء میں گھر میں نظر بند تھے۔ چین نے شان ڈانگ صوبے میں عورتوں پر دباؤ ڈال کر اسقاط حمل کرانے کے خلاف مہم چھیڑی تھی۔ بانگ اور یین کے پناہ لینے کی کوشش کو بھی امریکہ کے ذریعے اس کے اندرونی معاملے میں مداخلت مانتا ہے اور دونوں دیشوں کے رشتوں میں تھوڑی کشیدگی آگئی ہے۔ نئے کمیونسٹ حکمرانوں کے سامنے پارٹی ورکروں کے ذریعے اقتدار کے بیجا استعمال کرپشن اور قانون کی حکمرانی کی کمی اور سرکار کے پروپگنڈے کو تسلیم نہ کرنے والی جنتا میں ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ پچھلی بار چین میں ایسی ناراضگی 1989ء میں دیکھی گئی تھی۔ پھر بھی تیاننمن چوک جیسی ٹریجڈی کا اندیشہ کسی کو نہیں ہے۔ لیکن اس مرتبہ چین میں ہونے والے واقعات کا اثر دنیا پر پڑے گا۔ امریکہ پر سب سے زیادہ قرض چین کا ہے۔ وہ دنیا میں سونے اور موبائل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ سال2001ء میں صنعت کاروں کو پارٹی میں داخلہ دئے جانے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کی نئی نسل کا عروج ہوا ہے۔ سرکاری اداروں میں بڑے عہدوں پر فائض ان لوگوں کے بیرون ممالک میں لاکھوں ڈالر مالیت کے عالیشان مکان ہیں۔ پروپرٹی پر نگاہ رکھنے والی شنگھائی کی ایجنسی حران کی رپورٹ کے مطابق چین پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ امیر 70ممبران پارلیمنٹ کے پاس 90 ارب ڈالر کی پراپرٹی ہے۔ بیجنگ کے ایک پراپرٹی کے ماہر پکھوان کہتے ہیں کہ ہر شعبے میں چینی افسر کرپٹ ہیں۔ پچھلے سال چین کے سینٹرل بینک کی رپورٹ میں خلاصہ کیا گیا تھا کہ 1990 کی دہائی کے درمیان سے 2008ء کی پہلی چھ ماہی تک سرکار سے وابستہ 18ہزار افراد قریب 127 ارب ڈالر لے کربیرون ملک چلے گئے تھے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی دمن کرکے سبھی طرح کی برائیوں کو دبانے میں لگی ہوئی ہے۔ چین کی جو چمک دھمک باہر سے نظر آتی ہے وہ دراصل بے قصوروں کے خون سے لت پت ہے جو دکھائی دیتا ہے وہ اصل نہیں ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟