پہلگام میں حملہ : سوال تو پوچھے جائیں گے!
بے سرن ہی کیوں نشانہ بنا؟ دہشت گردوں کا پنا ہ کار کون ہے ؟ ایسے سوال آج پورا دیش پوچھ رہا ہے ۔یہ کوئی چھوٹا موٹا حملہ نہیں تھا جموں وکشمیر میں 2019 میں پلوامہ میں ہوئے حملے کے بعد منگلوار کو پہلگام میں سیاحوں پر ہوا حملہ سب سے بڑا آتنکی حملہ ہے۔پلوامہ میں 14 فروری 2019 کو جیش محمد کے ایک فدائی حملہ آور نے سی آر پی ایف کے قافلے پر دھماکوں سامان سے بھری گاڑی پر حملہ کیا تھا ۔اس حملے میں 40 جوان شہید ہو گئے تھے ۔آج تک اس بات کا تسلی بخش جواب نہیں ملا کہ دھماکو شہ سے بھری آتنکی اپنی گاڑی سی آر پی ایف کے قافلے میں لیکر کیسے گھسا ۔خیر آج بات کرتے ہیں بیسرن کے آتنکی حملے کی اس نے ہر ہندوستانی کا کلیجہ چیر کر رکھ دیا ہے۔ کسی کا سہاگ اجڑا تو کسی کی گود،کسی کے کمانے والے نے دم توڑا تو کسی کا بھائی اب کبھی بھی لوٹ کر گھر نہیں آئے گا ۔دہشت گردی نے ایک بار پھر سے زمین کی جنت پر خون کی ہولی کھیلی ہے جس نے نہ صرف انسانیت کو شرمسارکیا بلکہ کشمیریوں کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے ۔اس بار نہ تو دہشت گردوں نے رات کے اندھیرے کا انتظار کیا اور نا ہی کسی سنسان جگہ کو نشانہ بنایا۔ اس بار انہوں نے بھری دوپہر میں پہلگام کے بیسرن کے مونا جسے منی سوئزر لینڈ کہا جاتا ہے ۔آتنکی حملے نے کئی سوال کھڑے کئے ہیں ۔اب تک جو بیسرن پیار ،محبت کے لئے جاناجاتا تھا و ہ اب ڈر وخوف ،موت ودہشت کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔پہلا سوال بیسرن وادی کو دہشت گردوں نے نشانہ کیوں بنایا ؟ سیاحوں کے لئے یہ وادی کافی محفوظ مانی جاتی رہی ہے اس لئے پہلگام کے مقابلے میں چند سینا اور پولیس کی تعیناتی نہیں ہوتی کیا اس کا فائدہ دہشت گردوں نے اٹھایا ؟ کیا یہ آتنکی بیسرن ویلی میں کافی دن سے رکے ہوئے تھے ؟ جس طرح سے دہشت گردوں نے اس واردات کو انجام دیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ سب کچھ پلان کے تحت کیا گیا ہے ۔اس کا مطلب تو وہ کافی وقت سے پہلگام یا بیسرن کے آس پاس چھپے رہے ہوں گے ؟ کیا مقامی لوگ بھی اس حملے میں شامل ہیں ؟ کیا مقامی لوگوںنے انہیں پناہ دی ہے ؟ آتنکی ایک دن میں ہی بیسرن کیسے پہنچ گئے ۔امرناتھ یاترا سے پہلے کیوں ایسا ماحول بنایا ۔پہلگام میں سیاحوں کو نشانہ بنایا؟ آتنکیوں کے پاس اتنے جدید ہتھیار کہاںسے آئے ۔یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب وزیراعظم سعودی عرب میں تھے اور امریکہ کے نائب صدر وینس دہلی میں تو کیا سندیش دینا چاہتے تھے یہ دہشت گرد اور ان کے آقا۔ فوج کے ذمہ داروں نے فوجی ناکامی اور سیکورٹی خامیوں کو اجاگر کیا ہے ۔جیسے جیسے دیش اس خوفناک ٹریجڈی سے نکل رہا ہے ویسے ویسے بھارت کی سیکوڑٹی اور کمزوریوں پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں ۔کرنل آسو توش کالے جنہو ں نے کشمیر میں لمبے عرصہ تک علیحدگی پسندی سے لڑتے ہوئے اور دہشت گردی مخالف کاروائی چلانے اور کئی خامیاں گنائیں ۔پلان بناتے وقت کئی پہلوو¿ں پر غور کیا گیا ۔اس میں مقامی گائیڈ کا استعمال ،حملے کی جگہ کے قریب بیس بنانااور واردات کی جگہ پر بھیڑ جمع ہونے کے موقع کی بنیاد پر حملے کا تجزیہ کرنا شامل ہوسکتا ہے ۔دہشت گردوں کی گھس پیٹھ کے راستوں کے ساتھ ایک باہر نکلنے کے راستے کا بھی پتہ لگایا ہوگا ۔جس کی بنیاد پر بنا پکڑے جانے کا خفیہ راستہ ملتا اور حملے کے بعد وہ جلد ہی سے بھاگ نکلے ۔ایک دیگر افسر نے بتایا کہ یہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی ہے ۔حملے کے وقت دو ہزار سے زیادہ پارک میں سیاہ موجود تھے اور ایک بھی سیکورٹی ملازم وہاں موجود نہیں تھا نا آرمی نہ پولیس ۔ایسا کبھی ہوا ؟ کیا ہمارے خفیہ محکمہ کو اس مجوزہ حملے کی کوئی معلومات ملی تھی یا نہیں ؟ اگر نہیں تھی تو یہ بہت بڑی خفیہ ناکامی ہے اور اگر تھی تو بروقت قدم کیوں نہیں اٹھائے گئے ؟ مقامی جگہ کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا خطہ جہاں سیاہ اکثر آتے ہیں ۔دہشت گردوں نے جانچ کی ہوگی ۔یہاں صرف پیدل یا گھوڑے سے آیا جاتا ہے ۔سیکورٹی روٹیشن بریک کی پہچان کی ہوگی اور کم چوکسی والے وقت کا فائدہ اٹھایا ۔کیا پاک فوج کے چیف جنرل منیر کی تقریر ایک وارننگ تھی جب انہوں نے بڑی مری میٹنگ میں کہا کہ کشمیر میں ہمارا ہاتھ ہے ۔سرکار کا رخ بالکل صاف ہے کیا یہ ایک وارننگ تھی ؟ پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بیسرن کوئی سرھدی علاقہ نہیں ہے ۔یہ کم سے کم کشمیر کے بارڈر سے 150 کلو میٹر اندر ہے ۔آتنکی اتنا اندر کیسے محفوظ طریقہ سے گھس آئے ۔یہ واردات سیکورٹی پروٹوکال میں وسیع خامی کو ظاہر کرتی ہے ۔ممکنہ خامیوں میں باقاعدہ نگرانی کی کمی شامل ہے ۔خاص طور سے ذرائع اور کم گشت والے راستوں پر ۔ایک محفوظ ترین خطہ مانا جانے والے علاقہ میں ہتھیاروں سے گھس پیٹھ نہ صرف درپردہ سیکورٹی میں خامیوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ خطرے کے تجزیہ میں لاپرواہی کو بھی دکھاتا ہے۔اور پوری طرح امن بحال ہونا سمجھ لینا بھی بڑی بھول ظاہر کرتا ہے ۔اس طرح کا آپریشن پیشہ آور مدد کے بنا نہیں کیا جاسکتا ۔پاک فوج اور آئی ایس آئی کو اس میں شامل کیا جانا چاہیے ۔آخر میں ہم ان شہیدوں کے پریواروں کے تئیں ہمدردی ظاہر کرتے ہیں اور متوفین کو شردھانجلی دیتے ہیں جنہوں نے اپنوں کو کھویاہے ۔اوپر والا انہیں صبر دے اور اس مشکل گھڑی میں اس سے نکلنے میں مدد کرے ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں