دھنکڑ کے بیان پر چھڑا گھمسان!
صدر اور گورنر کے ذریعہ بلوں کو منظوری دینے میں 3 مہینے کی وقت میعاد طے کرنے کے معاملے میں نئاب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کے ذریعہ سپریم کورٹ کی نکتہ چینی کئے جانے کے بعد سیاسی اور قانونی ماہرین کے درمیان بحث چھڑ گئی ہے انہوںنے بڑی عدالت پر حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کے وہ سپر سنسد نہیں بن سکتی ۔اور بھارت کے صدر جمہوریہ کو ہدایت دینا شروع نہیں کر سکتا ۔نائب صدر نے آئین کے آرٹیکل 142 کو جمہوری طاقتوں کے خلاف نیوکلئر میزائل تک بتا ڈالا ۔یہ آرٹکل سپریم کورٹ کو خاص اختیار دیتا ہے۔جب مکمل انصاف کے لئے کوئی اور راستہ نہیں بچتا تب سپریم کورٹ اس آرٹکل سے مکمل اختیارات کا استعمال کرتا ہے۔یہ کسی آئینی ادارہ کے خلاف ہتھیار نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک امید کا دروازہ ہے ۔راجیہ سبھا ایم پی کپل سنبل نے نائب صدر جمہوریہ دھنکڑ کے ذریعہ دئے گئے بیان پر کہا کے یہ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ نامناسب ہے آج تک کسی چیرمین نے ایسی سیاسی رائے زنی نہیں کی ۔لوک سبھا اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیرمین کسی پارٹی کا ترجمان نہیں ہو سکتے ۔اگر ایسا ظاہر ہوتا ہے تو یہ عہدے کے وقار کے خلاف ہے اور عہدے کی ساخ کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔کپل سنبل نے کہا عدلیہ اپنی بات نہیں کہہ سکتی اس لئے جب اگزیکیوٹیو حملہ کرے تو بچاﺅ کرنا چاہئے۔سابق وزیر قانون کپل سبل نے کہا صدر اور گورنر کبینیٹ کے صلاح پر کام کرتے ہیں ۔بل لٹکانہ آئینی اختیار نہیں ہے ۔اگر پارلیمنٹ سے پاس بل راجپتی لٹکاکر بیٹھ جائے تو کیا ہوگا؟کپل سبل نے 24 جون 1975 کا ذکر کرتے ہوئے کہا اندرا گاندھی کا چناﺅ منسوخ کرنے کا فیصلہ ایک جج ،جسٹس کرشنا ائر نے سنایا تھا جس میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا چناﺅ ناجائز قرار دیا گیا تھا انہوںنے کہا کے اندرا گاندھی کے چناﺅ کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تب صرف ایک جج کرنشا ائر نے فیصلہ سنایا تھا ۔دھنکڑ جی کو یہ منظور تھا لیکن اب دو ججوں کی بنچ کا فیصلہ صحیح نہیں ہے کیوں کے یہ سرکار کے حق میں نہیں ہے ۔ادھر مہیش جیٹھ ملانی نے دھنکڑ کے اس دمدار قدم کی تعریف کرنے کے ساتھ اس کی قانونی تشریح کرتے ہوئے ایکس پر لکھا ،جہاں کچھ لوگ سرکار کے دو حصوں اگزیکٹیو ،آئین سازیہ کے درمیان رسہ کشی کے بیچ دیش کے دوسرے چیف نائب صدر کے آنے کے جواز پر بھی سوال اٹھا سکتے ہیں لیکن بلکل واضح آئینی قصور اور اشارہ کرنا (نائب صدر ایک قانونی ماہر بھی ہیں)کے آئین کے آرٹکل 145 (3 )کے مطابق آئینی تقاضہ کی تشریح سے متعلق سوال پر 5 ججوں کی بنچ کے ذریعہ غور کیا جانا چاہئے اور دو جج صاحبان کی بنچ کا فیصلہ غیر تسلیم تھا یہ یقینی طور سے آئین کی حد بنائے رکھنے کےلئے نائب صدر کے حلف برداری کی ذمہ داری کی تعمیل ہوگی ۔بے شک اپنے دیش میں کئی ایسے بڑے وکیل ہیں جنہیں لگتا ہے کے وہ عدلیہ کو متاثر کر سکتے ہیں ۔عزت معاب جج صاحبان کو زبردست طریقوں سے ٹرول کرکے متاثر کرسکتے ہیں ۔لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کے آج کی تاریخ میں اگر جنتا کو انصاف کی کوئی امید بچی ہے تو وہ صرف عدالتوں سے سیاسی سربراہ کیوں کے ایسے وکیلوں کو کوئی زیادہ مضبوتی دینے میں کوشش لگتی ہے اور انصاف کی کوشش اور سیاست کے درمیان دوریاں مٹنے لگتی ہیں ۔صحیح انصاف کے لئے سیاست کو دور رکھان ہوتا ہے ۔تمل ناڈو کے گورنر کا معاملہ ہو یا وقف بورڈ کا دونوں ہی محاظ پر عدالت پر سب کی نگاہیں ٹکی ہیں ۔سیاست کے متاثر ہو بغیر ،ٹرول ،آرمی اور نیتاﺅ کے بیانوں سے متاثر ہو بغیر آئینی کے پس منظر میں ہوا فیصلہ ہی ایسے تنازعوں کا نپٹارا کر سکے گا ۔دیش کے عام شہریوں کے لئے سیاست سے زیادہ انصاف ضروری ہے۔(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں