گرفتاری کے بعد بھی سشیل کی کم نہیں مشکلیں!

بیجنگ اور لندن میں ترنگا لہراتے ہوئے ورلڈ چمپیئن کی تصاویر کی جگہ اب تولیہ میں منھ چھپائے سشیل کمار نے لے لی ہے ۔ لندن اولمپک کا جھنڈا اب سلاخوں کے پیچھے ہے دھنکڑ کے باپ رولہ گاو¿ں میں جب سشیل کمار کی پیدائش ہوئی تب کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ دو المپک میڈیل اور ورلڈ چپمیئن شپ میںگولڈ میڈل جیت کر دیش کا نام روشن کر دے گا حالانکہ چار مئی تک یہ بھی کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی نوجوانوں کا رول ماڈل رہا پہلوانی کے شائقین سے اب منھ چھپاتا ہوا گرفتار ہوگادہلی پولس کے اسپیشل سیل کے ہتھے چڑھا سشیل کمار کی مصیبت گرفتاری کے بعد بھی اور بڑھ گئی ہے بتایا جا رہا ہے جس طرح گرفتاری کے بعد بلٹ پروف گاڑی میں پولس کے خاص سیکورٹی کے دستے کی حفاظت میں اسے ساکیت کورٹ میں پیش کیا گیا اس سے اس قیاس کو بھی تقویت ملنے لگی ہے کہ سشیل پہلوان کی جان کو اب ساگر قتل معاملے میں ساطر بدمعاش سے خطرہ ہے یہ خطرہ دہلی این سی آر میں ابھی سب سے زیادہ سر گرم لائرنس ۔ بشنوئی۔ کالا جڑیڑھی گروہ سے ہے یہ خطرہ نہ صرف باہر بلکہ جیل کے اندر بھی ہے اس بات کا ذکر ہے اس بات کا ذکر سشیل پہلوان کے وکیل نے کی ضمانت عرضی میں کیا ہے ساتھ ہی پہلوان ساگر کے قتل میں ملزم دو بار کے اولمپک ونر سشیل کمار اکیلا کھلاڑی نہیں ہے بلکہ وہ ریلوے کے سینئر افسر اور چھترا سا اسٹیڈیم کے او ایس ڈی اور پہلوانوں کو تیار کرنے کا ذمہ سنبھالنے والے مشہور کوچ بھی ہیں ۔ در اصل ساگر کے قتل جس سونو کو اس نے پیٹا تھا وہ لارینس بشنوئی کا رشتہ دار بتایا جا رہا ہے چار مئی کی دیر رات چھترا سا اسٹیڈیم میں پہلوانوں کے دو گروپووں کے معمولی جھگڑوں میں سشیل پہلوان کے گروپ نے دوسرے تین پہلوانوں ساگر، سونو مہل اور امت کو جس طرح جم کر پیٹا اور پھر ساگر نے اسپتال میں دم توڑ دیا اس میں زخمی سونو نے سب سے پہلے سشیل کمار کا نام لیکر بتایا کہ مار پیٹ میں وہ بھی شامل تھا سونو کی پٹائی سے کالا ناراض ہے یہی وجہ ہے کہ سشیل پہلوان کی جان کو اس گروہ سے خطرہ مانا جارہاہے لارینش ۔ بشنوئی جو جودھ پور جیل میں بند ہیں وہیں کالا جیڈی تھائی لینڈ سے گروہ کو چلا رہا ہے اس سے پہلے بھی کئی معاملوں میں سشیل کما ر کا نام آتا رہا ہے مگر کسی قتل جیسے سنگین معاملے میں اس کانام پہلی بار آیا ہے اس قتل کی بھی کوئی خاص وجہ اب تک سامنے نہیں آئی ہے کوئی ماڈل ٹاو¿ں کی پراپرٹی کو لیکر قتل کی وجہ بتا یا جا رہا ہے تو کوئی سشیل کی بالا دستی اور روب جمانے کیلئے جم کر پٹائی کرنے کا معاملہ بتاا جا رہا ہے یہ بات بھی بتایا جا رہا ہے ساگر دھنکڑ کو پوری طرح سے پیٹ کر باقی پہلوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ چھاترا سا اسٹیڈیم میں اس کی بادشاہت ہے اسی کو ذہن میں رکھ کر مارپیٹ کا ویڈیوبھی بنوایا تھا پولس کی پوچھ تاچھ میں سشیل کے ساتھ پہلے بھی بتا چکا ہے کہ جب پہلوان ساگر دھنکڑ کو مل کر لوگوں نے مارنا شروع کیا تھا اس سے پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا کہ کوئی سینے اور سر پر نہیں مارے گا مارتے ہوئے اس کا دھیان رکھنا ہے مگر رات کے اندھیرے میں کسی نے ساگر کے سر پر لوہے کی راڈ یا ڈنڈے سے تیزی سے وار کر دیا جس سے اس کا سر پھٹ گیااور اسپتال میں اسے مردہ قرار دے دیا گیا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟