اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی !

قریب دو ہفتوں سے چھڑے خونی لڑائی کے بعد آخر کار غزہ پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوگیا ہے گیارہ دنوں تک چلے اس تشدد میں حماس نے اسرائیل پر 4ہزار راکیٹ داغے اور اسرائیل نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے غزہ میںپندہ سو ٹھاکنوں کو نشانہ بنایا اس لڑائی میں کم سے کم 234لوگوں کی موت ہوئی جن میں سو سے زیادہ عورتیں اور بچے شامل ہیں اور اسرائیل کا کہنا کہ اس کے یہاں حماس کے حملے میں بارہ لوگوں کی جان گئی جسمیں 2بچے تھے سیز فائر کیا ہے ؟آسام لفظوں میں کہیں تو جنگ بندی یعنی دونوں فریقین کے ذریعے ہمیشہ کیلئے ایک طے میعاد تک لڑائی روکنے کا اعلان ہے حالانکہ جنگ بندی کے بعد بھی یہ بلکل ممکن ہے کہ مستقبل میں جنگ پھر شروع ہوسکتی ہے ماضی گذشتہ میں ایسا ہوا ہے کہ جب اسرائیل اور حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پھر سے لڑائی شروع کر دی تھی اس بار دونوں فریق مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے سے لڑائی روکنے پر راضی ہوگئے تھے جنگ بندی کے اعلان سے ٹھیک پہلے حماس نے اسرائیل میں راکیٹ داغے جانے اور اسرائیل میں ہوائی حملوں کی خبریں آئیں تھی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی شرطوں کو لیکر بہت کم جانکاری سامنے آپائی ہے دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی کو لیکر بات چیت پردہ کے پیچھے ہوتی رہی ہے اور جنگ بندی کے پوری کاروائی میں امریکہ اور اقوام متحدہ، مصر و قطر کا بڑا رول رہا ہے اسرائیل وزیر اعظم کے دفتر نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل لڑائی روکنے کیلئے روایتی اور بنا شرط جنگ بندی کیلئے راضی ہوگیا ہے غزہ میں حماس کے ایک نیتا نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیل کے قبضے والے مشرقی یوروشلم میں قائم الاقصیٰ مسجد اور اس کے پاس کے سیخ زرہ علاقے سے ہٹنے کیلئے تیار ہوگیا ہے حالانکہ اسرائیل نے اس دعویٰ سے انکار کیا ہے اسی وجہ سے یہ جنگ یا لڑائی شروع ہوئی تھی مشرقی یوروشلم کا سیخ زرہ وہی علاقہ ہے جہاں فلسطینی کنبوں کو ہٹا کر یہودی بستیاں بسائے جانے کے دباو¿ کے سبب تشدد بھڑکا تھا اسرائیل وزیر اعظم بنجامن نیتن یاھو کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں اسرائیل حملے کے بے حد کامیاب اور انہوں نے حماس کے ساتھ اس کے تجزیہ بدل دیئے ہیں خبر ہے کہ اسرائیل نے غزہ پٹی تک فلاحی مدد پہونچانے کیلئے ایک کراسنگ پائنٹ بھی کھول دیا ہے اسرائیل میں آمدورفت پر لگی زیادہ ر ہنگامی پابندیاں ہٹائی جا چکی ہیں جنگ بندی کی کوئی وقت یا میعاد نہیں طے کی گئی ہے اور دنیا بھر کے نیتاامید جتا رہے ہیں یہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے گی ۔ مصر نے کہاہے کہ اس جنگ بندی پر نظر رکھنے کیلئے تل ابیب میں اپنا نمائندہ بھیج رہا ہے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یہ جنگ بندی ایک ترقی کا سنہرہ موقعہ لائی ہے یوروپی یونین کی طرف سے ہم اس جنگ بندی تک پہونچنے کیلئے مصر ، اقوام متحدہ ، امریکہ اور ان سب کی تعریف کرتے ہیں ۔ جنہوں نے اس میں اپنا اہم رول نبھایا ہے امید کی جاتی ہے کہ یہ جنگ بندی دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگی اور خطہ میں امن چین کا دور کا آغاز ہوگا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟