اس زبردست لاپرواہی کیلئے کون ذمہ دار ؟

حادثہ میں ڈھائی سال کے معصوم کرشنا نے جمع کی شام دم توڑ دیا بچے کی موت راجدھانی کے کھوکھلے سسٹم کی کاپرواہی کی ایسی تصویر ہے جسے سن کر ہر کسی ماں باپ کا کلیجہ کانپ کر رہ جائے گا ۔اسپتال کی ایمبولینس نے زندگی اور موت ک درمیان لڑتے ہوئے قریب آٹھ گھنٹے تک دہلی کے سرکار اسپتال کے چکر کاٹتا رہا کسی اسپتال کے ڈاکٹر نے علاج تو دور اس کو دیکھنے کی زہمت بھی نہیں کی وقت پر علاج نہ ہونے کے سبب معصوم کی موت ہو گئی رشتہ دار کئی بڑے اسپتالوں میں اسے لیکر دوڑ ے علاج کے لئے بیڈ نا ہونے کا کہہ کر داخل نہیں کیا گیا اس بچے کا نام کرشنا تھا اور اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اس کے باپ کا نام بھوپیس منڈل ہے جو بہار کے مدھوبنی کا باشندہ ہے ۔اس کا پریوار کچھ برسوں سے مجنوں کا ٹیلہ علاقہ میں ایک عمارت میں رہتے ہیں ۔جمع کو دوپہر دو بجے کرشنا بہنوں کے ساتھ کھانا کھا رہا اور وہ پانی پینے کے لئے اٹھا اور کھیلتے ہوئے گرل پر اگیا جہاں سے وہ تیسری منزل سے سڑک پر آگرا واردات کے فوراً بعد اس کے باپ اسے لیکر ٹروما سینٹر لے گئے وہاں ابتدائی علاج کے بعد بھی اس کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آئی تو ڈاکٹروں نے اسے ایمس کے ٹروما سینٹر بھیج دیا ۔رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ قریب ڈیڑھ گھنٹے تک حادثاتی ٹروما سینٹر میں ایک فلور سے دوسرے فلور تک چکر کاٹتے رہے جہاں کہا گیا کوئی بیڈ خالی نہیں ہے اس کے بعد شام 6 بجے آر ایم ایل لے گئے لیکن وہاں بھی کسی ڈاکٹر نے ہاتھ نہیں لگایا اور مایوس ہو کر ایل این جے پی آگئے وہاں بھی کسی ڈاکٹر نے نہیں دیکھا 9 بجے ایمبولینس میں آکسیجن ختم ہو گئی اور رات 9 بجے بچے کو مردہ قرار دے دیا گیا ۔سنیچر کی دوپہر بچے کا انتم سنسکار کر دیا گیا ۔پریوار کا کہنا ہے کہ وقت پر علاج ملتا تو ان لا لاڈلا بیٹا زندہ ہوتا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟