ایک بار پھر نکسلی حملہ !

چھتیس گڑھ میں بیجاپور اور سکمہ کے جنگل میں نکسلیوں کے ساتھ مڈبھیڑ میں سکورٹی فورس کے کئی جوانوں کا شہید ہونا تکلیف دہ اور افسوسناک تو ہے ہی اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گنجان علاقوں میں نکسلیوں سے مقابلہ کرنے میں ہمارے جوان اتنے خطرات کا سامنا کرتے ہیں ۔ایک جوان اب بھی لا پتہ ہے جبکہ 31 جوان زخمی ہیں نکسلیوں نے واردات کو ٹیکل گنڈہ کے جنگل میں انجام دیا تھا ۔مڈبھیڑ کے بعد نکسلیوں نے جوانوں کے ہتھیار چھینیں اور کئی شہیدوں کے جوتے اور کپڑ ے بھی اتار دئیے ۔چھتیس گڑھ میں گزشتہ دس دن میں یہ دوسرا حملہ ہے 23 مارچ کو نکسلیوں نے نارائن پور ضلع میں بس کو اڑا کر پانچ جوانوں کو مارڈالا تھا اس حملے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بدلی حکمت عملی ہر سال آٹھ مارچ کو پریکٹیکل کاو¿نٹر آفنسنگ کمپین شروع کرتے ہیں اس بار اسے جنوری سے ہی شروع کر دیا اور ہر سال دو سے آٹھ دسمبر تک بی ایل جی اے ہفتہ مناتے ہیں اس بار ہفتہ نہیں منا رہے ہیں اپریل 2010 میں چھتیس گڑھ کے دانتہ واڑا میں مڈبھیڑ میں 70 سے زیادہ جوان شہید ہونے کا واقعہ یا 2013 میں بستر کی وادی میں کانگریس کی پریورتن یاترا کے دوران قافلے پر حملہ کر کے کانگریسی لیڈروں سمیت 17لوگوں کو مارنے کے ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ سکورٹی فورس پچھلے کچھ دنوں سے نکسلی کمانڈر ہڈماکے ٹھکانہ کے بارے میں اطلاعات لے رہے تھے اس خطرناک نکسلی کمانڈر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ارم وادی میں ہوئے حملے کے علاوہ پچھلے سال سکورٹی فورس پر کئے گئے ایک حملے میں شامل تھا جس میں 17جوان شہید ہوئے تھے ۔دراصل ایسے بڑے حملوں کو انجام دینے والا سینئر نکسلی لیڈر ہڈما سکورٹی فورس کے لئے بڑا درد سر بنا ہوا ہے ۔جمع کو بیجاپور اور سکمہ کے جنگلوں میں اس کی تلا ش کے دوران نکسلیوں نے ان جوانوں کو گھیر لیا اور کئی گھنٹہ مڈبھیڑ چلی یہ نکسلی متاثرہ ضلع کے گھنے جنگل ہیں اور ان جنگلوں میں ہی نکسلی اڈے ہیں جہاں پہونچ پانا کسی کے لئے آسان نہیں ہوتا اور نا ہی کسی کے بارے میں پختہ اطلاعات ہوتی ہے ایسے میں سکورٹی فورس کے لئے خطرہ بنا رہتا ہے اور اکثر وہ حملے کا شکار ہوجاتے ہیں سوال یہ ہے کہ نکسلیوںسے نمٹنے کی حکمت عملی کارگر کیوں ثابت نہیں ہو رہی ہے ؟دہائیوں کے بعد بھی مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاریں نکسلیوں کی کمر توڑنے میں کیوں کامیاب نہ ہو پائیں ۔حملوں میں جس طرح سے جوانوں کی جان چلی جاتی ہے اس سے تو لگتا ہے کہ نکسلیوں کے خلاف چلائے جانے والی مہم میں کہیں نہ کہیں سنگین خامیاں رہ جاتی ہیں خفیہ اطلاعات اور صحیح فیصلے کے تال میل کی کمی میں ٹھوس حکمت عملی نہیں بن پاتی ہے اور جوان مارے جاتے ہیں ۔حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ اتنے برسوں میں کسی بھی سرکار نے نکسلیوں سے کسی بھی طرح بات چیت کا راستہ نہیں اپنایا بڑے حملے کے بعد نکسلیوں کے صفائے کیلئے سارا زور کاغذوں تک ہی محدود رہ جاتا ہے پوری طرح سے نکسلیوں کا صفایاآسان نہیں ہے یہ سرکاریں بھی جانتی ہیں اس لئے اس پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے کے لئے مرکز اور سرکاروں کو نئے سرے سے حمکت عملی بنانے کی ضرورت ہے مارے گئے جوانوں کو ہم اپنی شردھانجلی دیتے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟