فوجی کیمپوں پر حملے اتنے عام کیوں ہوگئے ہیں

وزارت دفاع سے وابستہ پارلیمانی کمیٹی نے ایک کے بعد ایک کئی فوجی کیمپوں اور اداروں پر ہورہے مسلسل حملوں کو لیکر سرکار کی جم کر کھنچائی کی ہے۔ پارلیمنٹ میں دیوسمیتی کی رپورٹ میں سوال اٹھایاگیا ہے کہ فوجی اداروں پر آتنکی حملہ ہونا عام بات کیوں ہوگئی ہے؟ یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب کچھ وقت پہلے جموں و کشمیر میں سنجواں آرمی کیمپ پر آتنکی حملہ ہوا۔ اس میں فوجیوں کے کنبوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ میں پانچ سکیورٹی جوان مارے گئے جبکہ تین آتنک وادیوں کو ڈھیر کردیا گیا۔ پارلیمانی کمیٹی نے اس حملہ کوکمزور سکیورٹی گھیرے کی ایک مثال قراردیا ہے۔ کمیٹی نے حیرانی جتائی ہے کہ وسیع حفاظت والے ملٹری کمپلیکس میں سیندھ لگانے میں آتنکی کامیاب کیسے ہورہے ہیں؟ جنوری2016 میں پٹھانکوٹ کے ایئر بیس پر آتنکیوں نے بزدلانہ حملہ کیاتھا۔کمیٹی کا ماننا ہے کہ اس حملہ سے بھی کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ اس کے بعد فوجی کیمپوں کی قلعہ بندی کرنے کے لئے جو قدم اٹھائے جانے تھے اس سمت میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ پٹھانکوٹ ایئربیس پر ہوئے حملہ کے بعد سرکار نے فوجی اداروں کی سکیورٹی کو چاق چوبند کرنے کے لئے اس وقت کے وائس چیف آف لیفٹیننٹ جنرل فلپ کمپوس کی رہنمائی میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ کمیٹی نے مئی 2016 میں اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو سونپ دی۔ اس میں پایا گیا کہ کئی فوجی اداروں کی سکیورٹی میں خامیاں ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی نے اس بات پر تعجب جتایا کہ اس کمیٹی کی سفارشوں کو لاگو کرنے میں مہینوں لگ گئے۔ اس درمیان کئی فوجی کیمپوں پر آتنکی حملہ ہوتے رہے۔ سنجواں فوجی کیمپ پر حملہ کے کچھ دن بعد ہی وزارت دفاع نے سکیورٹی اداروں کی سکیورٹی مضبوطی کی خاطر 14900 کروڑ روپے جاری کئے۔ فوج نے کمیٹی کے سامنے اپنی بات رکھی۔ فوج کے نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہنے کوتو حکومت نے 14000 کروڑ روپے کیمپوں کی سکیورٹی پر خرچ کرنے کا حق دے دیا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ پیسہ فوج کو ملے بجٹ میں سے خرچ ہونا ہے۔ایسے فوج کے پاس اپنی ضرورتوں کو نئے سرے سے طے کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ سکیورٹی گھیروں کو مضبوط کرنے کے سازو سامان کی خریداری کے لئے الگ فنڈ بنانے کی ضرورت ہے۔ فوجی کیمپوں کی سکیورٹی کے لئے صرف پالیسی کا اعلان کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ زیادہ فوجی گراؤنڈ پر تعینات کرنے کے بجائے ٹکنالوجی کا سہارا لینا ہوگا۔ فوجی کیمپوں کے آس پاس آبادی کے دباؤ بڑھنے پر توجہ دینی ہوگی۔ خفیہ ان پٹ بڑھانا ہوگا، نئی ٹیکنالوجی لانی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟