عاپ کے20 ممبران اسمبلی کو ہائی کورٹ نے دی راحت

دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو آفس آف پرافٹ معاملہ میں چناؤ کمیشن کی سفارش پر صدر کے ذریعے ڈسکوالیفائی کئے گئے عام آدمی پارٹی کے 20 ممبران اسمبلی کی نا اہلی کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کردیا ہے۔ عدالت نے چناؤکمیشن کو نئے سرے سے اس معاملہ پر سماعت کرنے کو کہا۔ دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس چندرشیکھرکی بنچ نے کہا کہ عاپ ممبران اسمبلی کو نا اہل ٹھہرانے والا نوٹیفکیشن قانوناً صحیح نہیں تھا۔ ممبران اسمبلی کو نا اہل ٹھہرانے والے چناؤ کمیشن کی سفارش کو قصوروار مانتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اس میں جوازی انصاف کے اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ کمیشن نے ان ممبران اسمبلی کو دہلی اسمبلی کی ممبر شپ کے لئے نا اہل ٹھہرانے کی سفارش کرنے سے پہلے کوئی زبانی سماعت کا موقعہ نہیں دیا گیا۔ عدالت نے کہا چناؤ کمیشن کی طرف سے صدر کو 19 جنوری 2018 کو دی گئی رائے میں جوازی انصاف کے اصول کی تعمیل نہ کرنے کی وجہ سے قانوناً غلط اور حصول پر مبنی ہے۔ یہ معاملہ مارچ 2015 سے چل رہا ہے۔ جب اروند کیجریوال نے اپنے 21 ممبران اسمبلی کو پارلیمانی سکریٹری کے عہدے پر مقرر کیا تھا۔ اس کے مطابق دہلی میں پارلیمانی سکریٹری کو گھر ،گاڑی ،دفتر جیسی سہولیات مل سکتی ہیں۔ چناؤ کمیشن نے 19 جنوری 2018 کو پارلیمنٹری سکریٹری کے عہدہ کو آفس آف پرافٹ کا عہدہ مانتے ہوئے صدر رامناتھ کووند سے 20 ممبران اسمبلی کی ممبر شپ منسوخ کرنے کی سفارش کی تھی۔ چناؤ کمیشن کا کہنا تھا کہ یہ ممبر اسمبلی 13 مارچ 2015 سے 8 ستمبر 2016 کے درمیان آفس آف پرافٹ کے معاملہ میں نا اہل قرار دئے جانے چاہئیں۔ اس کے بعد 21 جنوری کو مرکزی سرکار نے اس بارے میں نوٹیفکیشن جاری کیاتھا اور اس فیصلہ کے خلاف 20 ممبران دہلی ہائی کورٹ پہنچے۔ آفس آف پرافٹ کا مطلب اس عہدے سے ہے جس پررہتے ہوئے کوئی شخص سرکار کی طرف سے کسی بھی طرح کی سہولت لے رہا ہو۔ اگر اس کے اصول اور تاریخ کی بات کریں تو اس کی شروعات برطانوی قانون ایکٹ آف یونین 170 میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص راجہ کے ماتحت کسی بھی عہدہ پر کام کرتے ہوئے کوئی سیوا لے رہا ہے پنشن لے رہا ہے تو وہ شخص ہاؤس آف کامن کا ممبر نہیں رہ سکتا۔ ہندوستانی آئین کی بات کریں تو آئین کی دفعہ 191(1A) کے مطابق اگر کوئی ممبر اسمبلی کسی فائدہ کے عہدہ پر پایا جاتا ہے تو اسمبلی میں اس کی ممبر شپ نااہل قرار دی جاسکتی ہے۔ اترپردیش سرکار میں آفس آف پرافٹ پر بنے رہنے کی وجہ سے سال2006 میں جیہ بچن کو اپنی راجیہ سبھا ممبری چھوڑنی پڑی تھی۔جیہ بچن نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف عرضی ڈالی تھی اور کہا تھا کہ انہوں نے کسی طرح کی سہولت نہیں لی۔ عدالت نے ان کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مسئلہ پر سرکار کی قانونی پوزیشن صاف ہے جس کے مطابق اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ آفس آف پرافٹ پر رہتے ہوئے کوئی سہولت لی گئی یا نہیں بلکہ اس میں اس سے فرق پڑتا ہے کہ وہ آفس آف پرافٹ کا عہدہ ہے یا نہیں؟ عاپ ممبران اسمبلی کے وکیلوں نے بڑی ہوشیاری سے ہائی کورٹ میں اس مسئلہ کو چھوا ہی نہیں انہوں نے تو اس بات پر اعتراض جتایا کہ ممبران اسمبلی کو چناؤ کمیشن نے بات رکھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔ اس تکنیکی دلیل سے ہائی کورٹ متاثر ہوگیا اور اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ابھی بھی آفس آف پرافٹ کا اشو طے ہونا چاہئے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ چناؤ کمیشن کے لئے بڑا جھٹکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کمیشن نے اسے اپنے لئے کوئی جھٹکا ماننے سے انکار کیا ہے۔ یہ رد عمل جھینپ مٹانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔ چناؤکمیشن کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان لگتا ہے ساتھ ساتھ چناؤکمیشن نے صدر کو بھی بیچ میں فضول گھسیٹ لیا ہے۔ اب چناؤ کمیشن کو نئے سرے سے ان ممبران اسمبلی کو چننا پڑے گا اور اس معاملہ کی سماعت میں لمبا وقت لگ سکتا ہے۔ تب تک نئے چناؤ ہوجائیں گے۔ کسی بھی طرح کے فیصلہ سے شاید فرق نہ پڑے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟