امریکہ سمیت 17 ممالک نے روس کے107 سفارتکار ملک بدر کئے

یہ دنیا میں پھر سے سرد جنگ شروع ہونے کی آہٹ ہے۔ امریکہ نے پیر کو روس کے 60 سفارتکاروں کو ملک سے نکال دیا ہے۔ ان میں سے 12 اقوام متحدہ میں معمور ہیں۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس سمیت18 ممالک نے بھی روس کے 40 سفارتکاروں کو نکال دیا ہے۔ برطانیہ پہلے ہی 23 روسی سفارتکاروں کو نکال چکا ہے۔ برطانیہ میں سابق روسی جاسوس سرگئی اسکپل اور ان کی بیٹی یوریا کو زہر دے کر موت کی نیند سلانے کے معاملہ میں روس چوطرفہ گھر گیا ہے۔ اس معاملہ میں کئی ملکوں نے ایک ساتھ روس کے خلاف کارروائی کی۔ امریکہ سمیت 17 ملکوں نے روس کے 107 سفارتکاروں کو ملک بدر کردیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 60 روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ جرمنی، فرانس، پولینڈ، اٹلی، نیدر لینڈ سمیت 14 یوروپی یونین کے ملکوں نے کل30 روسی سفارتکاروں کو نکالنے کے فیصلے سے ایک خوفناک تنازع و ٹکرار شروع ہوگئی ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے اپنے سفارتکاروں کے خلاف ہوئی اس کارروائی کے خلاف جوابی کارروائی کے سخت اشارہ دئے ہیں۔ وزارت نے بیان جاری کرکے کہا نیٹو اور یوروپی یونین ممالک کے ذریعے ہمارے سفارتکاروں کو نکالنے کے فیصلہ کی ہم سخت ملامت کرتے ہیں اور اس کے خلاف غیر دوستانہ قدم اٹھانے کو بھی مجبور ہیں۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ دیش حالات سے واقف ہوئے بنا ہمارے خلاف کارروائی کررہے ہیں یہ قدم لڑائی کو بڑھائے گا اور ٹکراؤ کی سرگرمیاں پیدا ہوجائیں گی۔ ماسکو نے یہ بھی کہا ہے کہ برطانیہ نے ہم پر بے بنیاد الزام لگائے ہیں۔ یہ ہمارے خلاف ایک طے شدہ اور جانبدارانہ اور کچلنے والا قدم ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور روس (سابقہ سوویت یونین) کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا ٹکراؤ شروع ہوگیا اور دونوں دیشوں کے بیش اثر بڑھانے کی دوڑ لگ گئی ہے۔ 1990 تک دنیا کے زیادہ تر دیش دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان بنٹے رہے۔ سوویت یونین کی تقسیم کے بعد جو سرد جنگ ختم ہوگئی تھی وہ پھر شروع ہونے جارہی ہے۔ اس کارروائی کے بعد روس اور مغربی ممالک کے ملکوں کے درمیان ایک سنگین سفارتی بحران کھڑا ہوگیا ہے۔ روس کے خلاف برطانیہ کے ساتھ یوروپی ممالک اور امریکہ کا آنا زبردست اتحاد کا مظاہرہ ہے ۔ یہ ایسا وقت آرہا ہے جب بریگزٹ کے چلتے برطانیہ اور یوروپی یورپ میں کشیدہ تعلقات ہیں۔ 60 روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کا مقصد بھارت جیسے دیش کو کئی پیغام بھیجنا ہی نہیں ہے جس کے ماسکو اور واشنگٹن کے ساتھ یکساں طور پر مضبوط رشتے ہیں ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟