امریکہ۔ چین کی ٹریڈ وار

دنیا کی دو سب سے بڑی معیشت والے دیش چین اور امریکہ کے درمیان ٹریڈ وار چھڑنے کے امکانات سے ماہر معاشیات اور شیئر بازاروں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ امریکہ نے چینی آئٹموں پر 50 ارب ڈالر کے نئے درآمدی ٹیکس ٹھونکنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ ادھر چین نے بھی اس قدم کے خلاف سخت قدم اٹھانے کی وارننگ دے دی ہے۔ ٹریڈ وار کو اردو میں کاروبار کے ذریعے جنگ کہہ سکتے ہیں۔ کسی دوسری جنگ کی طرح اس میں بھی ایک دیش دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور پلٹ وار کے لئے تیار رہتا ہے لیکن اس میں ہتھیاروں کی جگہ ٹیکسوں کا استعمال کرکے غیر ملکی سامان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے میں جب ایک ملک دوسرے ملک سے آنے والے سامان پر ٹیرف ٹیکس بڑھاتا ہے تو دوسرا دیش بھی اس کے جواب میں ایسا ہی کرتا ہے اور اس سے دونوں ملکوں میں ٹکراؤ بڑھتا ہے۔ امریکہ کے راشٹرپتی ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد قریب 60 ارب ڈالر کی مصنوعات پر درآمد فیس لگانے کے آرڈر پر دستخط کرنے کے ساتھ عالمی ٹریڈ وار کا بگل پھونک دیا ہے۔ چین نے بھی اس کی مخالفت میں امریکہ کی128 مصنوعات پر درآمد ٹیکس لگانے کی بات کی ہے۔ چین نے سوور کے گوشت (پورک) اور پائپ سمیت دیگر امریکی مصنوعات پر بڑھی فیس نافذ کرنے کی اسکیم جاری کی۔ امریکی راشٹرپتی ڈونلڈ ٹرمپ مانتے ہیں کہ ٹریڈ وار آسان اور بہتر ہے اور وہ ٹیکس بڑھانے کے مدع سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ امریکہ کا قدم مبینہ طور پر کئی سالوں سے ہو رہی انٹیلیکچوئل پراپرٹی کی چوری کے بدلے میں اٹھا رہا ہے کیونکہ چین پر انٹیلیکچوئل پراپرٹی چرانے یعنی مصنوعات کا بنیادی ڈیزائن اور وچار وغیرہ کی چوری کے بدلے میں کی جارہی کارروائی ہے۔ اس مار دھاڑ کی آشنکا کا اثر صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے۔ 23 مارچ کو ممبئی شیئر بازار کا عدداشاریہ قریب 410 پوائنٹ گر گیا یوں تو چین۔ امریکہ ٹریڈ وار میں بھار ت کا کہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بھارت عالمی کاروبار کا بہت چھوٹا کھلاڑی ہے۔ چین اور امریکہ بڑے کھلاڑی ہیں۔ چین کی مصنوعات سستی ہوتی ہیں اس لئے ان کا عالمی بازار ہے۔ امریکہ میں بھی وہ سستے پڑتے ہیں اس لئے وہ بکتے ہیں۔ ٹرمپ کو اس سے پریشانی یہ ہے کہ امریکہ میں لوگوں کے کاروبار پراس کا الٹا اثر پڑتا ہے۔اس کا ماننا ہے کہ چینی آئٹموں پر زیادہ ٹیکس لگا کر انہیں مہنگا بنا کر امریکہ میں چینی آئٹموں کی کھپت پر روک لگے گی۔ فطری ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان کی یہ جنگ اب دو طرفہ ہی نہیں کثیرطرفہ بازار کے انتظامات کو چنوتی دے رہی ہے جو1990 کے بعد سے عالمی بازاروں کو ریگولیٹ کرتی آئی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ امریکہ۔ چین اپنے اس ٹریڈ وار کو مل بیٹھ کر سلجھائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟