ہند۔پاک مشترکہ کارنامہ تو ہے لیکن امن کا پیغام بھی ہے!

جمعہ کا دن بہت اہم تھا۔ نہ صرف بھارت کیلئے بلکہ پورے برصغیر کیلئے۔دنیا کا انتہائی اعزاز کا مانند نوبل پیس ایوارڈ بھارت اور پاکستان میں مل کر آیا ہے۔جب سرحد پر ہند۔ پاکستان کے درمیان تلخی انتہا پر ہے تب کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی کو نوبل امن ایوارڈ کے لئے چنا جانا خوش آئند اور حیرت آمیز تحفہ بھی ہے۔اس سے ان دونوں ملکوں پر امن قائم کرنے کا اخلاقی دباؤ بنتا ہے۔ ان دنوں کو اپنے اپنے علاقوں میں کئے گئے لائق تحسین کاموں کیلئے یہ اعلی ترین اعزاز ملا ہے۔ کیلاش ستیارتھی جہاں دہائیوں سے گاندھی وادی طریقے سے بچہ مزدوری کے خلاف اپنی مہم چھیڑے ہوئے ہیں وہیں ملالہ بچیوں کی تعلیم اور عورتوں کی طاقت کی علامت کے طور پر بین الاقوامی سفیر بن کر ابھری ہے۔ اپنی غیر سرکاری تنظیم ’’بچپن بچاؤ‘‘ کے ذریعے کیلاش ستیارتھی اب تک80 ہزار بچوں کو مزدوری کی لعنت سے نجات دلا چکے ہیں۔ ملالہ کو لڑکیوں کو تعلیم دینے کی پیروی کرنے کی وجہ سے طالبان کے حملے کا شکار ہونا پڑا تھا لیکن اس کے بعد وہ پوری دنیا میں صرف اس جدوجہد کی علامت بن گئی ہے۔ کیلاش ستیارتھی نے اس اعزاز کو دیش کے نام وقف کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو استحصال اور ذیادتی سے بچانے اور ان کی بہبود کے لئے وہ آگے بھی اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔ ملالہ کوا یوارڈ ملنے پر پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ 17 سالہ لڑکی ملالہ یوسف زئی یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی سب سے کم عمر کی شخصیت ہے۔ ملالہ کو لڑکیوں کو پڑھانے کیلئے پیروی کرنے پر طالبان کی گولی کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ اس کے بعد دنیا نے ملالہ کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور اب وہ بچوں کے حقوق کی لڑائی کی علامت بن گئی ہے۔نوبل پیس کمیٹی نے کہا ہے کہ ملالہ ابھی کم عمر ہے لیکن لڑکیوں کو تعلیم دلانے کے لئے لمبی جدوجہد کر چکی ہیں۔ کیلاش ستیارتھی اور ملالہ کو 6.6 کروڑ روپے ملیں گے۔ یہ رقم دونوں میں برابر بانٹی جائے گی۔ نوبل ایوارڈہر سال 10 دسمبر کو الفریڈ نوبل کی یوم پیدائش پر دیا جاتا ہے۔نوبل کمیٹی نے ہندوستانی برصغیر میں بچوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے چنا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ایک ہندو اور ایک مسلمان اور ایک ہندوستانی، ایک پاکستانی کا تعلیم اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں شامل ہونا ایک اہم پہل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اسلامی کٹر پسندوں کو چیلنج کرتے ہوئے دنیا میں لڑکیوں کو تعلیم کیلئے آواز بلند کرنے والی17 سالہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو نوبل کا امن ایوارڈ دینے کا اعلان اس وقت کیاگیا جب اس پر دہشت گردی کا حملہ ہونے کے دو سال پورے ہونے والے ہیں۔ مذہبی کٹر پسندوں کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر پڑھائی کا جنون لیکر نکلی ملالہ کو طالبان نے 9 اکتوبر 2012ء کو اسکول جاتے وقت گولی ماری تھی۔ بچپن میں اسکول کے دروازے پر اپنے والد کے ساتھ کام کرتے ایک بچے کی مجبوری کا کیلاش ستیارتھی پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ بعد میں اپنی جمی جمائی نوکری چھوڑ دی اور وہ بچوں کو بندھوا مزدوری سے نجات دلانے کے لئے اپنی کوشش میں لگ گئے۔ ان کی پہل سے جنوبی ایشیا میں ہزاروں بچے اسکول لوٹے ہیں۔ اپنے یہاں بچوں کو تعلیم کا حق کا قانون بنا تو اس کے پیچھے کیلاش ستیارتھی کا ہی اشتراک رہا ہے۔ ملالہ کونوبل ایوارڈ دینے کے پیچھے ایک پیغام یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سرگرم ایسے عناصر کو دنیا برداشت نہیں کرے گا جو ملالہ کی جان ہی نہیں بلکہ اس ذہنیت کے دشمن ہے جو 17 سالہ بچی کو دنیا کے سب سے معزز ترین ایوارڈ کا مستحق بناتی ہے۔ کیلاش آزادی کے بعد کی پیڑھی سے تعلق رکھتے ہیں اور ملالہ محض17 سال کی ہے۔ اس مشترکہ اعزاز کا یہ پیغام بھی مانا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان آزادی کے دور کی تلخی کو پلنے اور بڑھنے سے روکنے میں نئی پیڑھی کے ذریعے رشتوں کو جانچنے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے ملالہ کو پاکستان کی شان بتایا ہے لیکن اس سب سے بڑے اعزاز کا وقار تبھی برقرار رہے گا جب ملالہ کی عزت کے ساتھ واپسی ہو۔ اس بار نوبل امن ایوارڈ کمیٹی کا یہ تبصرہ بھی بحث کا موضوع بن سکتا ہے کہ دونوں دیشوں میں تعلیم اور دہشت گردوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہم ہندو اور مسلمان کو یہ ایوارڈ دے رہے ہیں لیکن یہ وقت تو ہند۔ پاک کو ملے مشترکہ کارنامے پر فخر کرنے اور ایوارڈ کے ذریعے ملے پیغام کو سمجھنے کا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟