نریندر مودی اور امت شاہ کی اگنی پریکشا ہیں اسمبلی چناؤ!

ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کیلئے15 اکتوبر کو ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ان میں بڑے بڑے سورماؤں کی سیاسی قسمتیں بند ہوچکی ہیں۔ 19 اکتوبر کو جب ووٹوں کی گنتی ہوگی تب پتہ چلے گا ان دونوں انتہائی اہمیت کی حامل ریاستوں میں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے۔ عام چناؤ میں کامیابی کی نئی عبارت لکھنے والی مودی شاہ کی جوڑی کی ساکھ پھر داؤ پر لگی ہے۔ چاہے وہ ہرینہ ہو یا مہاراشٹر۔ لڑائی نریندر مودی بنام باقی پارٹیاں یعنی مودی ورسز بقایا ریسٹ بن گئی ہیں۔ اس کی اہم وجہ ہے کہ بھاجپا نے ان دونوں ریاستوں میں اپنے وزیر اعلی کا دعویدار کون ہے اس کو ظاہر نہیں کیا ہے۔ ریاستی یونٹ کو بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ ساری کمان خود وزیر اعظم نریندر مودی نے سنبھالی ۔ پہلے بات کرتے ہیں مہاراشٹر کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ریاست میں تابڑ توڑ 33 ریلیاں کی ہیں۔ مہاراشٹر اسمبلی میں 288 سیٹیں ہیں جبکہ ہریانہ میں90 ہیں۔ مودی کو یہ ثابت کرنا ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں ان کی کامیابی یوں ہی نہیں تھی۔ وہیں کانگریس ، این سی پی اور علاقائی پارٹیوں کے سامنے اپنی ساکھ اور وجود بچانے کی چنوتی ہے۔ مہاراشٹرمیں پچھلے پانچ سال میں یہ پہلا ایسا چناؤ ہے جب بڑی پارٹی بغیر کسی اتحاد کے میدان میں ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی 257 سیٹوں پر چناؤ لڑ رہی ہے جبکہ اتحادی چھوٹی پارٹیاں31 سیٹوں پر اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔25 سال پرانابھاجپا۔ شیو سینا اتحاد ٹوٹ چکا ہے۔ دراصل سورگیہ گوپی ناتھ منڈے کے جانے کے بعد بھاجپا میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جسے آج تک پر نہیں کیا جاسکا۔ ادھر کانگریس اور این سی پی کا 15 سال پرانا اتحاد بھی ٹوٹ گیا ہے۔ پہلی بار مہاراشٹر میں پانچ رخی مقابلہ ہورہا ہے۔ جہاں تک ہریانہ کی بات ہے یہاں ہمارے مطابق مقابلہ کئی فریقینی ہے۔ بھاجپا۔ کانگریس۔ انڈین نیشنل لوکدل کے درمیان ہے۔ جہاں تک چناؤ کمپین کا سوال ہے سب سے اچھی کمپین موجودہ وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا نے کی ہے۔ ان کی چناؤ کمپین ٹھیک تھی ۔ ریاست میں ترقی پر مبنی ان کا ایجنڈا تھا جبکہ مودی کی ساری کمپین حکمراں پارٹی کے خلاف تھی۔ دونوں ہی ریاستوں میں مودی نے پچھلی سرکاروں کی خامیاں نکالنے کا کام کیا ہے۔ ہڈا کی شخصیت ساکھ ڈولپمنٹ پرش اور ٹیلنٹ ایڈمنسٹریٹر کی بنی ۔اس کا اثر روہتک، سونی پت، جھجھرو پانی پت بیلٹ میں دیکھنے کو ملا۔ یہ شہر میں کانگریس کو یقینی طور پر ووٹ دلائیں گے۔ اسی طرح نوح میوات میں اقلیتوں کے ووٹ کانگریس کو ملیں گے۔ انڈین نیشنل لوکدل کا اپنا اثر ہے اوم پرکاش چوٹالہ کے جیل جانے سے ان کی پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا۔ خاص کر جاٹھ بیلٹ میں۔ دونوں ہی ریاستوں میں یہ چناؤ اہم رہے گا۔ نوجوان ووٹ بہت سے تو پہلی بار ڈالیں گے اس میں مودی کی مقبولیت دکھائی پڑتی ہے۔ مودی کی ریلیوں میں بھیڑ میں خاص طور پر نوجوان شامل نظر آئے۔ ہڈا صاحب کو دیش میں نیگیٹو کانگریس ہوا اور پارٹی میں رسہ کشی کا نقصان ہو سکتا ہے۔ شخصی بات کریں تو ان کے حریف مانتے ہیں کہ وہ ایک کامیاب وزیر اعلی رہے ہیں۔ بھاجپا کے حق میں ڈیرا سچا سودا کے اس اعلان کی بھی اہمیت ہے کہ وہ بھاجپا کو ووٹ دیں گے۔ اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔ ڈیرا سچا سودا کے 60 لاکھ سے زیادہ ماننے والے ہیں اور اگر وہ بھاجپا کو ووٹ دیں تو چناؤ کا نتیجہ کچھ اور ہوسکتا ہے۔ ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی چناؤ نریندر مودی اور امت شاہ کیلئے کسی اگنی پریکشا سے کم نہیں ہیں۔دونوں ہی ریاستوں کے چناؤ کئی لیڈروں اور پارٹیوں کا مستقبل طے کریں گے۔ سنگھ حمایتی پارٹی اور سرکار میں پرانی پیڑھی کو الگ رکھنے اور نئی پیڑھی کو جگہ دینے کے بعد ان چناؤ میں مودی ۔ امت شاہ کی جوڑی کے لئے یہ سخت آزمائشی امتحان مانا جارہا ہے۔ دونوں ریاستوں میں اکیلے چلو کے ساتھ ٹکٹ تقسیم اور سیاست کے معاملے میں صرف اسی جوڑی کی چلی ہے۔ ایسے میں اگر یہ جوڑی کامیاب ہوئی تو پارٹی میں اس کی پکڑ مضبوط ہوجائے گی لیکن اگر نتیجے اچھے نہیں آئے یا امید کے مطابق نہیں آئے تو جوڑی کو تنقید کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار رہنا پڑے گا۔ دونوں لیڈروں کے سامنے مشکل یہ ہے کہ مہاراشٹر کی 288 سیٹوں میں سے جہاں پارٹی اپنے دم پر اب تک 60 سیٹوں کا نمبر نہیں پار کر پائی وہیں ہریانہ میں ہمیشہ علاقائی پارٹیوں کی ٹیم رہی ہے۔ بھاجپا اپنے دم پر پچھلے اسمبلی چناؤ میں 90 میں سے محض4 سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی۔ عام چناؤ میں پارٹی نے ہریانہ میں ہچکا اور مہاراشٹر میں شیو سینا کے ساتھ چناؤ لڑا تھا اور شاندار تاریخی جیت حاصل کی تھی۔ حالانکہ لوک سبھا چناؤ کے قریب پانچ مہینے بعد ہورہے ان دونوں ریاستوں میں اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کا اپنے پرانے ساتھیوں سے ناطہ ٹوٹ گیا ہے۔ چناؤ نتیجے کانگریس کے ساتھ ساتھ این سی پی ، شیو سینا، ایم این ایس، انڈین نیشنل لوکدل کا بھی مستقبل طے کریں گے۔ خراب نتیجے سے ان پارٹیوں میں نئے تنازعے کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ لیڈر شپ کیلئے بھی نئی مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے۔ مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی چناؤ کے نتائج کے بعد نئے سیاسی اتحاد بن سکتے ہیں اور حکمراں این ڈی اے اور یوپی اے اتحاد کے ساتھیوں نے ان چناؤ میں پالہ بدلا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اسمبلی چناؤ کے بعد این ڈی اے کے چہرے میں کیا تبدیلی آتی ہے یا نہیں۔ اگر بھاجپا اودھو ٹھاکرے کے بغیر مہاراشٹر میں اور چوٹالہ کے بغیر ہریانہ میں سرکار بنا لیتی ہے تو یقینی طور پر شیوسینا اور اکالی دل کی حیثیت مودی سرکار میں چھٹ جائے گی۔ یوپی اے بکھر جائے گا۔ اگر این سی پی نے مہاراشٹر میں اچھے نتیجے حاصل کئے تو شاید وہ یوپی اے میں نہ لوٹے۔ دونوں ریاستوں کے اسمبلی چناؤ سے لیفٹ اور علاقائی پارٹیوں میں سپا اور آر جے ڈی ، بسپا، جے ڈی یو، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے بھی کچھ نہ کچھ سبق لیں گے۔ ساری علاقائی پارٹیاں پردھان منتری نریندر مودی کے کانگریس مکت بھارت کے نعرے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم مودی سبھی ریاستوں میں صرف اور صرف بھاجپا کا پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے وہ صرف اور صرف امت شاہ کی چانکیہ چالوں پر منحصر ہیں۔ دیکھیں کہ مودی۔ شاہ کی شطرنجی چالیں کتنا رنگ لاتی ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟