دہلی میں سرکاریا چناؤ کا آخری موقعہ!

دہلی میں سرکار کی تشکیل کے بارے میں دہلی کے شہریوں کو مرکزی سرکار کے نقطہ نظر کیلئے ابھی کچھ اور وقت انتظار کرنا پڑے گا۔ مرکز نے10 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں بتایا ہے کہ صدر کے ذریعے ابھی فیصلہ لیا جانا ہے۔ دہلی میں سرکار بنانے کے لئے سب سے بڑی پارٹی کو بلایا جائے یا چناؤ کرائے جائیں اس پر غور چل رہا ہے اور جلد ہی فیصلہ ہوجائے گا۔ 28 اکتوبر تک کا ملا وقت آخری موقعہ مانا جارہا ہے۔ تب تک اگر حکومت نہیں بنی تو مرکزی حکومت یعنی لیفٹیننٹ گورنر کو اسمبلی بھنگ کرنے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ انہیں تین اسمبلی سیٹوں کرشنا نگر، تغلق آباد اور مہرولی کے ضمنی چناؤ کی بھی سفارش کرنی ہوگی۔ ان تینوں سیٹوں سے کامیاب ممبر اسمبلی ، ممبر پارلیمنٹ بن جانے کے بعد ان سیٹوں سے انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے استعفے کے 6 مہینے کے اندر یعنی اسمبلی بھنگ نہ ہونے پر 30 نومبر تک ضمنی چناؤ کرانا ضروری ہے۔ اس درمیان بدھ کو صدر کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کی طرف سے سرکار کو بھیجی گئی رپورٹ وزارت داخلہ کو لوٹائے جانے کے بعد بحث تیز ہوگئی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے مرکزی سرکار کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ راجدھانی میں بھاجپا سب سے بڑی پارٹی ہے ایسے میں اگر صدر محترم اجازت دیں تو سرکار بنانے کے لئے اسے مدعو کیا جاسکتا ہے۔ دہلی میں سرکار بنانے کے معاملے میں اب فیصلہ لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کو ہی لینا ہوگا۔ سیاسی پنڈتوں کا اندازہ ہے کہ جب اتنے دنوں تک بھاجپا نے کوئی سرکار بنانے کی پہل نہیں کی تو اب صاف ہے کہ آنے والی 15 اکتوبرکو ہریانہ اور مہاراشٹر اسمبلی چناؤ کے بعد ہی دہلی میں چناؤ کے بارے میں کوئی فیصلہ ہو۔بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مخالفین کو یہ کہنے کا موقعہ نہیں دینا چاہتی کہ اس نے دہلی میں اپنی سرکار بنانے کے لئے دوسری پارٹیوں میں توڑ پھوڑ کی۔ کہا یہ بھی جارہا ہے پارٹی کی نظر مہاراشٹر اور اسمبلی چناؤ نتائج پر ہے۔ اگر نتیجے اس کی توقع کو مطابق آئے تو وہ چاہے گی دہلی اسمبلی کو بھنگ کر اس کے چناؤ بھی جارکھنڈ اور جموں و کشمیر کے ساتھ کرا لئے جائیں۔ اگرنتیجے برعکس آئے تو وہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کی پہل کر سکتی ہے۔اس صورت میں سرکار بھاجپا کی بننی ہے اور بغاوت کی چنگاری کانگریس میں سلگنی فطری ہے جس بھاجپا کو سرکار بنانی ہے وہ آج تک اپنا وزیر اعلی امید وار تک نہیں چل پائی لیکن کانگریس کے کم سے کم پانچ ممبران اسمبلی نے اپنا طرف سے بھاجپا کو حمایت دینے کے بارے میں ذہن بھی بنا لیا ہے اور حمایت دینے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ جسے حمایت دیکر وزیر اعلی بنوانا چاہتی ہے اسے بھاجپا لیڈرشپ راج کاج سونپنے میں گذشتہ چار مہینے سے آناکانی کررہی ہے۔ پارٹی کے 8 میں سے6 ممبر اسمبلی نے بھاجپا ممبر اسمبلی رام ویر سنگھ ودوڑی کو وزیر اعلی بنانے کی شرط کے ساتھ بھاجپا کو حمایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ بھاجپا کے ایک بڑے لیڈر کے سامنے اس تجویزکو پیش کیا گیا جب بھاجپا کے نیتاؤں و آر ایس ایس کے سامنے یہ تجویز لائی گئی تو اس نے منع کردیا۔ کانگریس ممبر اسمبلی پروفیسر جگدیپ مکھی کو حمایت دینے کو راضی ہوجائے اور دوسرے نمبر پر ودوڑی رہیں۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ بھاجپا دیوالی منائے گی یا پھرصوبے کی گدی ابھی یوں ہی خالی پڑی رہتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟