اڈیشہ میں میجر سے بدسلوکی !

اڈیشہ پولیس کا بہت ہی گھناو¿نا چہرہ سامنے آیا ہے یا یوں کہیں تو کہ پولیس کے آئے دن کچھ نا کچھ کارنامہ دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔چاہے وہ اجمیر میں مہلا سپاہی کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کا معاملہ ہو یا پھر سڑکوںپر وصولی کو لے کر معاملہ ہو لیکن یہ چہرہ تو اس سے بھی زیادہ چونکانے والا ہے اور درندگی کا حامل ہے ۔اڈیشہ کے بھرت پور تھانہ میں فوج کے میجر اور ان کی منگیتر کے ساتھ جنسی اذیت رسانی مارپیٹ کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔متاثرہ خاتون نے الزام لگایا ہے کہ تھانہ کے انسپکٹر انچارج اور ایک دوسرے افسر نے ان کو جنسی ٹارچر کیا۔متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ان لوگوں نے میری جیکٹ سے میرے ہاتھ باندھے۔مہلا کانسٹیبل کے دوپٹہ سے میرے پیروں کو باندھا اور ایک کمرے میں بند کر دیا اس کے بعد ایک پولیس والا آیا اس نے میرے اوپر سے کپڑے ہٹا کر میرے سینے پر لگاتار کئی لاتیں ماریں ۔ہندوستانی فوج کے ایک میجر کی منگیتر نے بتایا یہ سب کیسے ہوا؟ اڈیشہ ہائی کورٹ کی ضمانت ملنے کے بعد متاثرہ نے بھونیشور پولیس کے تھانہ میں اس کے ساتھ ہوئی بدتمیزی اور زیادتی کا خلاصہ کیا ۔متاثرہ نے بتایا کہ وہ اپنے منگیتر کے ساتھ 15 ستمبر کی رات گھر جارہی تھی راستے میں کچھ لوگوں نے ا ن کا راستہ روک کر مارپیٹ کی کوشش کی ۔وہ پولیس سے مدد لینے کے لئے بھرت پور پولیس تھانہ پہونچی تو وہاں صرف ایک خاتون پولیس کرمچاری موجود تھی اس نے ایف آئی آر درج کرنے اور جرائم پیشہ کے پیچھے پولیس ٹیم بھیجنے کی مانگ کی تو مہلا پولیس کرمچاری نے ان کے ساتھ خود بدتمیزی کی اور گالیاں دیں اس پر میں نے بتایا کہ میں ایک وکیل ہوں اور آپ ایف آئی آر لکھیں ۔اس دوران پولیس کرمچاری بھڑک گئے اور میرے منگیتر کو جیل میں ڈال دیا ۔میں نے کہا کہ آپ ایک فوجی افسر کو جیل میں نہیں ڈال سکتے ۔اتنے پر وہ مہلا پولیس کرمچاری نے میرے بال پکڑ کر میرے ساتھ بدتمیزی اور مار پیٹ شروع کر دی ۔ایک مہلا پولیس کرمچاری نے میرا گلا دبانے کی کوشش کی تو میں نے بچاو¿ کے لئے اس کا ہاتھ کاٹ لیا ۔اس کے بعد مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا ۔کچھ دیر بعد ایک سینئر افسر نے میری پینٹ اتار کر میرا ریپ کرنے کی دھمکی دی ۔اس خلاصہ کے بعد جہاں فوج کے سینئر افسر حرکت میں آگئے ہیں وہیں پولیس کے ڈی جی پی نے تھانہ کے اس وقت کے انسپکٹر وینا کرشن کے ساتھ پانچ ملازمین کو معطل کر دیا ہے ۔ان پانچوں کے خلاف ڈسپلن کی کاروائی شروع کر دی گئی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ پولیس کرمچاریوں نے اس دوران میجر سے بدتمیزی اور اس کا پرس چھینا۔آرمی کا آئی ڈی کار ڈ سمیت کار کی چابی چھین لی گئی ۔اس مبینہ اذیت رسانی کے معاملہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اڈیشہ ہائی کورٹ نے پیر کو واردات پر تشویش ظاہر کی اور مکھیہ دھارا کی میڈیا اور شوشل میڈیا دونوں کو متاثرہ کے نام و پہچان بتانے سے روک دیا۔ہائی کورٹ نے اس ریاست کے سبھی 650پولیس تھانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نا لگانے کو لے کر انتظامیہ کی سخت نکتہ چینی کی تھی ۔کورٹ نے ایک سینئر افسر کو 8 اکتوبر تک اس معاملے پر پوری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟