جموں کشمیر میں ترقی کے کھلتے دروازے !

مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35Aکے منسوخ ہونے کے ایک سال بعد کے قوانین میں ترمیم کرکے جموں کشمیر کے باہر کے لوگوں کے لئے مرکزی حکمراں ریاست میں زمین خریدنے کا راستہ ہموار کردیا ہے اب ہر دیش واسی کسی بھی حصے کا ہو وہ جموں کشمیر میں اپنا گھر بنا سکتا ہے ۔ مکان اور دوکان کے لئے زمین خرید سکتا ہے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی وزارت نے اس سلسلے میں ہندی اور انگریزی میں ایک فرمان نوٹیفیکیشن میں زمینی قوانین میں مختلف تبدیلیوں کی جانکا ری دی ہے۔ جن میں پبلک دفتر یا عمارتیں بنانے کے لئے زرعی زمین کا استعمال کی منظوری دینا شامل ہے سب سے اہم ترین تبدیلی جموں کشمیر ڈیولپمینٹ ایکٹ میں تبدیلی کر دی گئی اور جس کی دفعہ 17سے ریاست کے مستقل باشندے لفظ کو ہٹا دیا گیا ہے غور طلب ہے کہ 08اگست 2019سے پہلے تک ریاست کا الگ آئینی سسٹم تھا ۔ اس میں مستقل شہری جن کے پاس ریاست کی مستقل شہریت سناختی کارڈ جسے ریاست کا مسئلہ کہا جاتا ہے ہی زمین خرید سکتا تھا ۔ دیش کے باقی شہری کچھ ضروری خانہ پوری پر ہی پٹے پر زمین حاصل کر سکتے تھے یا کرائے پر لے سکتے تھے ۔ سوال تو یہ ہے کہ جموں کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اس لئے وہاں کے قاعدے قانون دیش کی سبھی ریاستوں سے کیوں الگ ہونی چاہئے ؟ دیش کے ہر شہری کو وہاں رہنے اور کام کرنے کا قانونی حق ملنا چاہئے ۔ آنے والے دنوں میں سرکار کی کوششیں رنگ لا سکتی ہیں ۔ اور ریاست کی ترقی کے لئے یہ قدم سنجیونی ثابت ہونگے کیونکہ یہاں کی صنتعی ترقی میں زمین سے متعلق مسئلہ سب سے بڑی اڑچن تھی ۔ اب دیش کے صنعت کار ریاست میں پیسہ لگا سکیں گے اقتصادی کوششوں کو تقویت ملے گی ۔ اور روز گار بھی ملے گا پچھلے کئی دھائیوں سے جموں کشمیر جن بہرانی دور سے گزرا ہے اس سے نکلنے کے لئے وہاں کی اقتصادی ترقی کے راستے کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوںکو کام ملے اور وہ کسی کے بہکواے میں نہ آئیں مقامی لوگوں کے روز گار کا ذریعہ سیاحت کھیتی اور جانور پالنا ہے اس لئے اس بات کا خیال رکھا گیا ہے ۔ کہ کھیتی کی زمین صرف کسان کو ہی بیچی جائے گی ۔ ریاست میں ذراعت اور اس پر مبنی صنعتوں کو بڑھاوا ملتا ہے تو اس سے لوگوں کی طرز زندگی بدل جائے گی ۔ اراضی قوانین میں ترمیم کہ وجہ سے کشمیریوں میں ڈر پیدا ہونا فطری ہے اگر دوسرے ریاستوں سے لوگ وہاں بسنے لگیں گے تو مقامی کشمیریوں کا روزگار ٹپ ہوگا ۔ کشمیر میں اگر باہر کے لوگ صنعتیں یا فیکٹریاں لگاتے ہیں تو اس مالی ترقی کو بڑھاوا ملے گا۔ سرکار کے اس فیصلے کا ایک دور رس اثر ہوگا کہ اس سے کشمیر میں سماجی اور تہذیبی سطح پر ایک وراثت قائم ہوگی ۔ اس سے پاکستان پرست عناصر کے حوصلے کا دمن ہوگا جموں کشمیر کو لیکر سرکار کے پختہ عظم نے یہ پیغام دیا ہے کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کی ترقی کے لئے قوانین کو لچر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟