کیا روزگا ر ۔ترقی ذات کے جنجال پر بھاری پڑے گا ؟

ذات بہار کی سیاست کی سچائی ہے پچھلے اسمبلی چناو¿ کی طرح اس مرتبہ بھی پارٹیوں کے درمیا ن ذات پات کے تجزیہ کو بھانپنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ دو مرحلوں کے ہوئے پولنگ سے تو یہی لگتا ہے کہ ذات برادری ریاست میں اب بھی بڑا شو ہے ،حالانکہ ذات برادری تجزیہ اچھا انتظامیہ بنام جنگل راج جیسے اشو ز کے درمیان ریاست کی سیاست میں عرسے بعد روز گار کا اشو کافی اچھل رہاہے ۔ سبھی پارٹیاں زور شور سے روز گار کے اشو کو اٹھا رہی ہیں اور روزگار دینے واعدہ کررہی ہیں ۔ اپریل میں جب لاکھوں کی تعداد میں پرواسی مزدوروں کی میٹروں شہروں سے ہجرت ہوئی تب پہلی مرتبہ مقامی سطح پر روز گار کی کمی اور صنعت اور دھندوں کی کمی کا سوال اٹھا جو نوجوانوں میں زیادہ اثر کر رہا ہے۔ ریاست میں تقریبا نوجوان ووٹر 3.66کروڑ ہیں بہار میں ڈیڑھ دھائی بعد سبھی اسمبلی اور لوک سبھا چناو¿ میں اچھا انتظامیہ بنام جنگل راج اہم اشو رہا ۔ اس مرتبہ این ڈی اے روزگار اورترقی کی بات کرتے ہوئے اچھا انتظامیہ کی یا د دلا رہا ہے یہ پیڑی ترقی یافتہ ریاستوں کے ساتھ بہار کا معازنہ کرتی ہے آسان سوال ہے جب سیاسی پارٹیوں کا کام ذات کی جگل بندی سے ہی چل سکتا ہے تو ترقی اور روزگار جیسے اشو کو جگہ کیوں ؟پارٹیوں نے اپنے اپنے حساب سے ذات پات کے تجزیوں کی گوٹی بچھائی ہے این ڈی کے نگاہیں انتہائی پسماندہ ،برہمن اور مہا دلت پر ہے ۔ تو اپوزیشن مہا اتحاد کی یادو مسلم ،دلت اور کم تعداد میں ورما جیسی چوٹی چوٹی بردریوں پر لگی ہوئی ہے ریاست میں ویسے تو یہ برداریاں الگ الگ پارٹی کے ساتھ دکھائی پڑتی ہے ،مگر اس مرتبہ ان کے پاس روزگار سے متعلق سوال ہے ۔ ریاست میں ساڑھے چار لاکھ اسامیاں خالی ہے سابق جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بہار میں کونسی پارٹی کامیابی حاصل کرے گی این ڈی اے۔کانگریس اتحاد یا جے ڈی یو بھاجپا اتحاد سچائی یہ ہے کہ ریاست میں بڑے وسیع پیمانے پر بے روز گاری اور فاقہ کشی کے سبب بہار کے باشندے غریب ہی بنے رہیں گے، طبی سہولیات کی زبردست کمی اور جنتا کے لئے اچھی تعلیم یہاں ناداردہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟