اس سے تو بہتر دور درشن کا دور تھا !

جمہوریت کے چوتھے ستون پریس کی طاقت کے چلتے لوگ اس سے ڈرے ہوئے ہیں جس طرح کی زبان کا ٹی وی پر استعمال ہوتا ہے اور اس میں حصہ لینے والے نازیب الفاظ کا استعمال کرتے ہیں وہ بے حد تشویشناک ہے آخر میں عدالتوں کو ہی دخل دینا پڑتا ہے لوگ میڈیا سے الگ تھلگ رہنے کی امید کرتے ہیں اس سے تو بہتر بلیک اینڈ وائٹ دور درشن کا دورتھا میڈیا کو تحمل برتنے کی ضرورت ہے یہ رائے زنی دہلی ہائی کورٹ نے رپبلک ٹی وی اور ٹائمس ناو¿ کو لیکر داخل ہوئی عرضیوں پر سماعت کے دوران کی ۔ عدالت نے ان دونوں کو غیر ذمہ دارانہ اور توہین آمیز کمنٹس کرنے یا شائع کرنے پر روکنے کی درخواست والی بالی وڈ کے اہم پروڈیوسروں کی عرضی پر متعلقہ میڈیا گھرانوں سے جواب طلب کیا ہے جسٹس راجیو شکدھر نے اے آر جی آو¿ٹ لائنر اور میڈیا اور بینٹ کولمین گروپ سے یہ یقنی کرنے کو بھی کہا کہ ان کے چینلوں یا شوشل میڈیا اسٹیج پر کوئی ہتک عزت میٹر نا ڈالا جائے عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سخت رائے زنی کی اورپیچھا کررہے میڈیا سے بچنے کی کوشش کے دوران برطانیہ کی شہزادی ڈائنا کی موت کا ذکر کیا اور کہا کہ آواز کچھ دھیمی کئے جانے کی ضرورت ہےچونکہ لوگ جمہویت کے چوتھے ستون سے اس کے اختیارات کی وجہ سے خوف زدہ ہیں ۔جسٹس راجیو شردھر کی بنچ نے کہا میڈیا رپورٹنگ سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے سے ہی ایک رائے بنائی جاتی ہے ،پھر رپورٹنگ کی جاتی ہے اس میں خبر کم خیالات زیادہ ہوتے ہیں کورٹ نے معاملے میں رپبلک ٹی وی ،ٹائمس ناو¿ ،فیس بک ،گوگل اور ٹوئٹر سے بھی جواب مانگا ہے ۔اب سماعت 14دسمبر کو ہوگی ۔عدالت نے کہا رپورٹنگ کرنا میڈیا کا آئینی اختیار ہے مگر یہ غیر جانبدارانہ طریقے سے ہونی چاہیے ٹی وی چینل جانچ کر سکتے ہیں لیکن وہ کسی کے خلاف ایک نفرت بھری مہم نہیں چلا سکتے عدالت نے کہا کچھ معاملوں میں ایف آئی آر بھی نہیں تھی پھر بھی چینلوں نے افراد کو ملزم کہنا شروع کر دیا اس طرح کی لگاتا ر غلط رپورٹنگ سے شائع اور روشن خیال دماغ کی بھی متاثر ہوتے ہیں ۔بنچ نے کہا کہ کیس درج ہونے سے پہلے ناموں کا اعلان کر دیا جاتا ہے ۔وائٹ ایس ایپ چیٹ دکھائے جا رہے ہیں عدالت سمجھ نہیں پارہی تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے انہوں نے میڈیا سے کہا کہ آپ خود کنٹرول کی بات تو کرتے ہیں مگر کچھ بھی نہیں کرتے ۔یہ نیوز چینلوں کو خبروں کو کورکرنے سے نہیں روک رہی ہے لیکن صرف انہیں ذمہ دار صحافت کو آگے بڑھانے کے لئے کہہ رہی ہے ۔عدالت نے کہا ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ ایسی خبروں کو کور نہیں کر سکتے لیکن ہم آپ کو ذمہ دارانہ صحافت کرنے کے لئے ہی کہہ رہے ہیں ۔میڈیا اگر پروگرام کورٹ کی تعمیل نہیں کرتا ہے توعدالت اسے لاگو کرائے گی ۔اس پر میڈیا پاو¿سوں کی طرف سے وکیلوں نے کہا ہم تعمیل کریں گے ۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟