تائیوان نے چین کو دیا زبردست جھٹکا

تائیوان میں صدر سائی وین کا دوبارہ صدر کا چناﺅ جیتنا چین کے لئے اس لئے بھاری جھٹکا ہے کیونکہ چین نے انہیں ہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا چین کی دھمکیوں کے آگے تائیوان با لکل نہیں جھکا ۔صدارتی چناﺅ میں ایک طرف تھیں سائی ان وین تو دوسری طرف اہم حریف اور چین حمایتی ،ایم ٹی پارٹی کے چیف ہاﺅن کوان تھے ۔سنیچر کو آئے چناﺅ نتائج میں اس یورپی دیش میں پہلی خاتون صدر کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا ہے سینٹرل الیکشن کمیشن کے مطابق دیش کے 22شہروں اور کاﺅنٹی میں قریب 19310000ووٹر ہیں ۔کل ووٹروں میں چھ فیصد بیس سے 23سال کی عمر کے ہیں ۔چین تائیوان کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا وہ اسے اپنا حصہ مانتا ہے تائیوان کے معاملوں میں کسی دیش کا بولنا بھی چین کو پسند نہیں ہے ۔سائی کی جیت پر امریکہ نے خوشی ظاہر کی ہے اور انہیں مبارکباد دی ہے امریکی وزیر خراجہ مائیک پومپیو نے امید جتائی ہے کہ وہ چین کی زیادتی کے دباﺅ کو بھلا کر اسکے ساتھ رشتوں میں پائیداری لانے کی کوشش کریں گے ۔سائی کی شاندار جیت پر ورکروں نے اور دیش اور پارٹی کے جھنڈے ہاتھوں میں لے خوشیاں جتائی سائی نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ آزادی اور جمہوری طریقہ سے زندگی جینے سے اسے کتنا پیار ہم اپنے دیش سے پیار کرتے ہیں یہ ہماری شان ہے ۔چین کی تمام دھمکیاں بے اثر رہیں ۔چنین ہمایتی کے ایم ٹی پارٹی کے چیف ہان کوان نے اپنی ہار تسلیم کر لی ہے ۔سائی کی ڈیموکریٹک پارٹی کو 80لاکھ ووٹوں میں سے 57فیصدی ووٹ ملے جبکہ ان کی حریف پارٹی کو 38فیصد ووٹ ملے ۔تائیوان کا نتیجہ چین کے لئے بڑے جھٹکے کا اشارہ نہیں ہے ۔اس نے سائی کو صدر کے عہدے پر پھر سے نہ لوٹنے دینے کے لئے ہان کے حق میں پوری طاقت جھونک دی تھی پچھلے چار سال سے چین نے اقتصادی اور سفارتی دباﺅ بنا رکھا تھا ۔جس سے وہاں کی جنتا سائی کی حکومت سے اکتا گئے تھے لیکن اس کی یہ پالیسی کام نہیں آئی اور سائی کی پارٹی امید سے زیادہ ووٹ سے جیت پر دوبارہ پھر اقتدار میں آگئی اُدھر ہانگ کانگ بھی چین کے لئے درد سر بنا ہوا ہے ۔تمام کوششوں کے باوجود ہانگ کانگ میں احجتاجی مظاہروں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے دوسرے ملکوں کو گھیرنے کی چین کی حکمت عملی اُلٹی پڑ رہی ہے تائیوان نے ایک بار پھر دکھا دیا ہے کہ چین کو بھی شکست دی جا سکتی ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟