بھوکے بچوں کی چیخ سن کر سامنے آیا سیکورٹی فورس کا نیا اوتار

واقعہ 2جنوری کا ہے جو اتوار کو سامنے آیا بتایا جاتا ہے کہ جموں و کشمیر میں سی آر پی ایف کی ایک ہیلپ لائن پر شام 5:30بجے ایک خاتون کا فون آیا کہ اس کا خاندان سری نگر جموں ہائی وے پر جام میں پھنسا ہوا ہے بچے بھوکے ہیں اور بھوک سے بلبلا رہے ہیں مدد کیجئے ۔آصفہ نام کی اس خاتون کے فون پر سی آر پی ایف کی 167ویں بٹالین کی ڈی کمپینی فورا ایکشن میں آتی ہے اور پیدل ہی نکل پڑتی ہے برفیلے راستے میں بارہ کلو میٹر چل کر اُس خاندان کے لئے کھانہ پہنچا دیا جاتا ہے کھانا پہنچتے ہی ٹیم کے اسپیکٹر رگھویر سنگھ نے پورے واقعہ کو میڈیا کو بتایا پڑھیے رگھویر سنگھ کی زبانی ....ہمیں شام 5:30بجے کے بعد حکم ملا کہ ہائی وے پر جام میں ایک خاندان پھنسا ہوا ہے جس میں دو بچے ہیں اور صبح سے انہوںنے کچھ نہیں کھایا اس لئے ان کے لئے کھانہ پہنچانا ہے یہ کام ہمارے لئے ایک طرح کا امتحان تھا ۔دراصل ہمیں ایسی ذمہ داری کا ملنے کا اندازہ نہیں تھا خیر ہم نے چھ لوگوں کی ٹیم بنائی اور دال چاول دو ڈھائی لیٹر دودھ چھ لیڑ گرم پانی پھل اور بسکٹ لے کر نکل پڑے دو کلو میٹر پیدل چلنے کے بعد ہمیں لمبا جام دکھائی دیا لیکن اُس خاندان تک پہنچے میں بارہ کلو میٹر تک چلنا پڑا ہمارے پاس اُس پریوار کا فون آیا اس لئے اس کو تلاشنے میں دقت نہیں ہوئی لوگ چٹانیں گرنے کی وجہ سے سڑک پر جام میں پھنسے ہوئے تھے ہم نے فون پر اُس خاتون کو بھروسہ دلایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں کھانہ آگیا ہے ۔یہ سنتے ہی بچوں کے ہونٹوں اور چہروں پر خوشی کی لہر سی دوڑ گئی تین-چار سال کے دو بچے تھے ہم نے اس عورت سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلیے لیکن گاڑی میں بیٹھی دونوں عورتوں نے پیدل چلنے میں معزوری دکھائی اگر جام نہیں کھلتا ہے تو آپ کو اُٹھا کر ہی اگلے اسٹیشن تک لے چلیں گے لیکن وہ لوگ وہاں رکنا چاہتے تھے سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں اس لئے کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں تھا انہیں صرف کھانا چاہیے تھا ان کے کھانا کھانے تک رات آٹھ بجے تک وہیں رکے رہے اور فون دے کر واپس چل دئے اور اس کے بعد بارہ کلو میٹر تک پھر واپس چل کر اپنے بیس کیمپ پر گیارہ بجے واپس پہنچ گئے لیکن اس پریوار کا کوئی فون نہیں آیا صبح وہ جموں پہنچ گئے تو فون کر کے شکریہ ادا کیا یہ بات ہماری سیکورٹی فورس کو بہت سکون دینے والی تھی ہمارے جوانوں کو اکثر و بیشتر نکتہ چینی سننے کو ملتی ہے لیکن ایسے فلاحی کاموں کو کم بتایا جاتا ہے سی آر پی ایف جوانوں نے ان کی غذائی مدد کر کے پریوار کو بچا لیا حالانکہ مدد کی فراہمی میں برفیلے موسم میں 24کلو میٹر ٹھنڈ میں پیدل آنا جانا پڑا ہم سی آر پی ایف کی اس ٹیم کو بدھائی دینا چاہتے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟