امریکہ اور ایران جنگ کے چھٹتے بادل

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کے رو ز اشارہ دیا کہ وہ عراق میں امریکی اڈوں پر ایرانی میزائل حملوں کا جواب فوجی طریقے سے نہیں دے گا جس کے بعد دونوں ملکوں میں جنگ کے حالات پہنچنے سے پہلے اپنے قدم کھینچتے دکھائی دیئے ایرانی لیڈروں اور لوگوں کو سیدھا پیغام دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ان سبھی کے ساتھ امن کے لئے تیار ہے ۔جو امن چاہتے ہیں ایران کے لیڈروں اور لوگوں کے لئے ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا شاندار مستقبل ہو جس کے آپ حق دار ہیں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹ کے ذریعہ کہا ہے کہ ایران جنگ بڑھانا نہیں چاہتا صاف طور پر اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ آگے اگر امریکہ کوئی جوابی کارروائی نہیں کرئے گا تو امریکہ بھی کچھ قدم نہیں اُٹھائے گا یہ تشفی کی بات ہے کہ جنگ کے بادل جو چھائے ہوئے تھے وہ آہستہ آہستہ چھٹنے لگے ہیں بے شک دونوں ملکوں کے پیچھے ہٹنے کے اپنے اپنے اسباب ہیں ایران اور امریکہ جنگ نہیں چاہتے اس لئے کشیدگی کم کرنے کے لئے قدم اُٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ایسا صدر ٹرمپ کے بیان اور ایران کے میزائل آٹیک میں بھی دیکھنے میں بھی ملا ایران اس لئے بھی جنگ سے پیچھے ہٹ رہا ہے کہ کیونکہ اس کے اقتصادی اور اندرونی حالات اچھے نہیں ہیں ۔امریکہ کے لوگ بھی جنگ نہیں چاہتے ایسا پہلے کئی بار کہہ چکے ٹرمپ کیونکہ اسی سال امریکہ نے صدارتی چناﺅ ہونا ہے اگر جنگ ہوتی تو ٹرمپ کو کمپین میں نتیجوں کا جنتا کو جواب دینا ہوگا ۔ایران کا پرانا ریکارڈ ہمیشہ فوراََ فیصلے لینے والا رہا ہے ۔خلیج میں کشیدگی کم ہونا ہر کسی کے لئے فائدہ مند ہے ۔چین ،روس،سعودی عرب،ا سرائیل اور یورپی ممالک بھی جنگ نہیں چاہتے اس لئے وہ امن اور تحمل برتنے کی بار بار نصیحت دیتے رہے ہیں ۔کیونکہ دنیا کا کوئی بھی دیش فی الحال جنگ کو برداشت کرنے کی حالت میں نہیں ہے حالانکہ ایران امریکہ کے درمیان بات چیت سیدھی ممکن ہے ۔اس لئے اس میں تیسرے فریق کی گنجائش نہیں ہے ایران کوئی بھی غیر ذمہ دارانہ قدم اُٹھاتا ہے تو دنیا کے دیگر دیش اس کے خلاف ہو جائیں گے جو ابھی تک ساتھ ہیں خلیج میں کشیدگی کم ہونا ہر لحاظ سے بھارت کے لئے فائدہ مند ہوگا کیونکہ وہاں بڑی تعداد میں ہندوستانی مقیم ہیں ۔اس لئے بحریہ لوگوں کو نکالنے کے لے تیار ہے حالانکہ ابھی ایسی نوبت نہیں آئی بھارت میں سب سے زیادہ پیسہ اور تیل یہیں سے آتا ہے خاص کر عراق کے حالات کیونکہ خلیج میں عراق بھارت کو تیل دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے ۔ایران کے چاہ بار بندرگاہ میں بھی ہندوستان کی بڑی سرمایہ کاری ہے ہم امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کے بادل چھٹنے پر بدھائی دیتے ہیں ۔ان دونوں دیشوں میں جنگ پوری دنیا کو متاثر کرئے گی ۔سبھی کو اسے ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور دونوں ملکوں کو صبر سے کام لینا ہوگا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟