دنیا میں سب سے سرگرم نمبر ون خفیہ ایجنسی موساد

مشرقی وسطی میں چاروں طرف سے اسلامی ممالک سے گھرے چھوٹے سے ملک اسرائیل کے لئے اپنا وجود بنائے رکھنے کی چنوتی بروقت بنی رہتی ہے۔ اس دیش کی آبادی کافی کم قریب 80-85 لاکھ کے آس پاس ہے۔ اس کے لئے ان کے اپنے ہر شہری کی زندگی کی قیمت کافی زیادہ ہے۔اسرائیل اپنے شہریوں پر آنے والے کسی بھی سنکٹ کا منہ توڑ جواب یتا ہے اور آپریشن اسٹین وے ، آپریشن تھنڈر بولٹس و میونخ اولمپک میں اسرائیلی کھلاڑیوں کو مارنے کا عزم کا ایسے ہی کرارے جواب تھے۔ آپریشن اسٹین وے کے دوران اسرائیلی کمانڈوں اور فوج نے ایک دوسرے دیش یوگانڈا کے ہوائی اڈے میں بغیر اجازت داخل ہوکراغوا کئے گئے اپنے 54 شہریوں کو چھڑا لیا تھا۔ آج بھی دنیا کے سب سے بڑے شہری سکیورٹی آپریشن ایٹن وے کا نام سب سے اوپر شمار ہوتا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد آج دنیا کی سب سے اول نمبر خفیہ ایجنسی مانی جاتی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ایک بہت تیز ترار افسر سیون شیلوتھے اس ایجنسی کوقائم کرنے کا سہرہ انہی کو جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں جو سیکریٹ ڈپلومیسی ہوتی ہے موساد ہی اس کی خالق ہے۔ آپ کسی ایجنسی سے امید نہیں کرسکتے کہ یہ معموں کو اجاگر کرے لیکن موساد ایسی ایجنسی ہے جو ایک دیش کے معمے دوسرے دیش تک پہنچانے کا کام بھی کرتی ہے۔ اتنا ہی نہیں اس کے ایجنٹوں نے سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی سیکریٹری مونیکا لیونسکی کے ساتھ بات چیت کو ریکارڈ کر لیا تھا اور اس کے سہارے بل کلنٹن تک کو بلیک میل کیا گیا تھا۔ یہ تب ہوا تھا جب کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک امریکی صدر کی اس کے وائٹ ہاؤس اینٹرن سے جنسی تعلقات ہوسکتے ہیں۔ موساد ایک ایسی ایجنسی ہے جس میں سائیکلوجیکل جنگ کا پورا دماغ ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ آپریشن کے کونسے خفیہ حصہ کو میڈیا تک لیک کرنا ہے تاکہ دشمنوں کے دل و دماغ میں خوف اور بدحواسی پیدا کی جاسکے ۔ موساد کا پورا ایک دماغ ہے جیوک اور کیمیکل زہر کی تلاش میں لگا رہتا ہے اور اس سے خطرناک ہتھیار بھی بناتے ہیں۔ایسا مانا جاتا ہے کہ فلسطینی لیڈر یاسرعرفات کو موساد نے ایسا زہر دے کر مارا تھا کہ اس کی پہچان آج تک نہیں کی جاسکی۔ موساد کے پاس دنیا کے ہر لیڈر اور اہم شخصیتوں اور ایسے لوگوں کی خفیہ فائلیں بنی ہوئی ہیں جن کے پاس کسی بھی طرح کی کوئی فوجی اہمیت کی معلومات ہوتی ہے۔ مثال کے لئے ایک بار موساد کے ایجنٹوں نے دہشت گرد کی بیوی کو پھول بھیجے تھے اور اس کے چند منٹوں بعد ہی اس دہشت گرد کا قتل ہوگیا تھا۔ موساد ایجنٹوں نے عرب نژاد نیوکلیائی سائنسدانوں کو راستے سے ہٹایا تاکہ عرب ممالک کی نیوکلیائی بم بنانے کی خواہشات کو روکا جاسکے۔ موساد میں عورتیں بھی کام کرتی ہیں لیکن عورت ایجنٹوں کے لئے طے ہوتا ہے کہ انہیں کیا کام کرنا ہے اور کیا نہیں۔ ایران کے شاہ کے عہد میں ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک تک میں اپنی گھس پیٹھ کرلی تھی۔ ان ایجنٹوں نے عراق میں کرد باغیوں کی مد د کی تھی۔ موساد ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ مل کر کوبرڈ آپریشن بھی چلاتی ہے۔ان میں زیادہ تر کا شکار پاکستان ہوتا ہے۔ موساد کا خاص طور سے کام غیر ملکی خفیہ معلومات اکٹھا کرنا اور اسرائیل سے باہر کوبرڈ آپریشن کو انجام دینا ہوتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد وہاں کے اس وقت کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گرین کے وقت موساد کی نیو رکھی گئی تھی۔ موساد مشکل سے مشکل کام کرنے سے نہیں کتراتی۔ ابھی حال میں اسرائیل نے اپنے ایک ہیرو کی یاد گار نشانی حاصل کی ہے۔ اسرائیل 53 سال سے ایک گھڑی کی تلاش میں لگی ہوئی تھی۔تلاش کا ذمہ موساد کو سونپا تھا۔ دنیا کی سب سے چالاک خفیہ ایجنسی سے شام جا کر ایک گھڑی کے لئے سرچ آپریشن چلایا۔ آخر اب گھڑی تلاش کر لی گئی۔ گھڑی معمولی نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کے نیشنل ہیرو کی گھڑی ہے۔ اسرائیل کے نیشنل ہیرو یعنی ان کے بڑے جاسوس ایلی کوہن کی گھڑی ہے۔ ایلی 1960-65 میں شام میں رہ کر اسرائیل کے لئے جاسوسی کیا کرتے تھے۔1965 میں انہیں پکڑ لیا گیا اور پھانسی دے دی گئی تھی۔ تب سے موساد جاسوس کی آخری نشانی کے طور پر ان کی گھڑی کی تلاش میں لگی ہوئی تھی۔ تلاش کے لئے موساد نے اسپیشل آپریشن چلایا جس پر وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نظر رکھے ہوئے تھے۔ گھڑی ملنے کے بعد وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا کہ میں موساد کے لڑاکو کے عزم اور ہمت کی کارروائی کی تعریف کرتا ہوں۔ ٹیم کا مقصد اپنے عظیم جاسوس کی نشانی واپس لانا تھا حالانکہ نہ تو اسرائیل نے اور نہ ہی موساد نے یہ جانکاری ی کہ گھڑی کہاں سے اور کیسے اور کس حال میں ملی۔ مصر میں پیدا ہوئے کوہن موساد جوائن کرنے کے بعد عرب چلے گئے تھے وہاں سے وہ خفیہ جانکاریاں حاصل کرتے تھے۔ ان کی دی ہوئی خفیہ جانکاریاں ہی عرب۔ اسرائیل لڑائی میں اسرائیلی جیت کی سبب بنی تھیں۔ شام نے 1964 میں ان کی سچائی جان لی اور 1965 میں کوہن کو ڈھونڈ کر بیچ چوراہے پر پھانسی پر لٹکادیا تھا۔ کوہن کی پھانسی کی سزا کے خلاف اسرائیل نے بین الاقوامی سطح پر اپیل بھی کی تھی لیکن وہ اپنے جاسوس ہیرو کو بچا نہیں سکا۔ پھانسی کے بعد کوہن کی لاش اور اس سے جڑے سامان کہاں گئے یہ کسی کو پتہ نہیں چلا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟