مافیہ منا بجرنگی کے قتل پر اٹھے سوال

ہماری جیلوں میں مار پیٹ سے لیکر موبائل سے اپنا اسٹیٹ چلانا ناجائز چیزوں کی برآمدگی عام بات بن گئی ہے اور ہر واقعہ کے بعد جانچ، انکوائری بھی عام بات ہے لیکن ایک غیر محفوظ مانی جانے والی جیل کی بیرک کے اندر ایک خطرناک ڈان کو گولیوں سے چھلنی کر دینا عام نہیں مانا جاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ گولیوں سے چھلنی کرکے قتل چونکانے والا واقعہ ہے۔ باغپت ضلع جیل میں پیر کی صبح قریب6:15 پر خطرناک بدمعاش سنیل راٹھی نے پوروانچل کے مافیہ منا بجرنگی پر تابڑ توڑ 9 گولیاں داغ کر مار ڈالا۔ بجرنگی پر بسپا کے سابق ممبر اسمبلی لوکیش دیکشت سے پھروتی معاملہ میں کورٹ میں پیشی ہونی تھی۔ اسے ایتوار رات 9 بجے جھانسی سے باغپت جیل میں منتقل کیا گیا تھا۔ معاملہ میں جیلر ادے پرتاپ سنگھ، ڈپٹی جیلر شیواجی یادو و دیگر چی سکیورٹی گارڈ ارجندر سنگھ، مادھو کمار کو معطل کردیا گیا ہے۔ منا بجرنگی کا قتل حریف جرائم پیشہ گروپوں کی آپسی رنجش کا نتیجہ ہوسکتا ہے لیکن اس سے اترپردیش میں لا اینڈ آرڈر کو لیکر سنگین سوال ضرور اٹھ رہے ہیں، خاص کر اس لئے بھی کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے سال بھر سے جرائم پیشہ کے خلاف وسیع کارروائی شروع کی ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہوگیا کہ ایک ایسے بدمعاش کو جس پر قتل سے لیکر پھروتی جیسے 40 سے زائد مقدمات درج ہوں، جیل کے اندر گولی مار کر قتل کردیا جائے؟ جیل میں منا بجرنگی کے قتل کی گتھی ابھی الجھی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر جیل میں پستول کب اور کیسے پہنچی؟ واردات میں کیا اکیلا سنیل راٹھی شامل تھا، یا اس کے گینگ کا بھی کوئی رول تھا؟ سنیل راٹھی کہہ رہا ہے کہ پستول منا بجرنگی کی تھی، ایسا ہے تو پھر راٹھی نے اسے گٹر میں کیوں پھینک دیا؟ جیل میں داخلے سے پہلے ہر سامان کی جانچ ہوتی ہے، ہر جانے والے کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے اس کے بعد ہی اسے جیل کے اندر جانے دیا جاتا ہے۔ اترپریش پولیس کا بڑا درد سر منا نومبر2005 میں تب سرخیوں میں آیا جب اس نے بھاجپا کے ممبر اسمبلی کرشنا نند رائے کا قتل ہوا تھا۔ اس قتل کانڈ میں رائے کے علاوہ چھ مزید لوگ مارے گئے تھے۔ یہ اتنا خطرناک قتل کانڈ تھا کہ ہر متوفی کے جسم پر 60سے100 گولیوں کے نشان پائے گئے تھے۔ سچ یہ ہے کہ اپنے منہ سے 20 سال کی مجرمانہ زندگی میں 40 قتل کی بات کرنے والے منا کی فراری سے لیکر اس کے انکاؤنٹر میں بچنے اور پھر گرفتاری کی کہانی جتنی فلمی ہے اس کا خاتمہ بھی اتنا ہی فلمی ہوا۔ سیاست میں پیٹ رکھنے والے اس مافیہ سرغنہ کے قتل کے بعد پوروانچل کے جرائم پیسہ گروہ اور مافیہ نیا میں تو نئے تجزیئے بنیں گے ہی ذات۔ پات والا پوروانچل کا پس منظر بھی اس سے متاثر ہونے جارہا ہے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا جو گینگ وار جیل کے باہر ہورہی ہے وہ اب جیل کے اندر پہنچ گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!