درندوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے بلاتاخیر پھانسی پر لٹکاؤ

16 دسمبر 2012 کی رات فلم دیکھ کر لوٹتے وقت ایک 23 سالہ پیرامیڈیکل کی طالبہ نربھیا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے سارے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ چلتی بس میں اجتماعی آبروریزی اور حیوانیت کی ساری حدیں پار کردی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے دیش کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والے اس بدفعلی معاملہ میں قصورواروں کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھ کر ان کو صاف کردیا ہے کہ انہیں کوئی راحت ملنے والی نہیں ہے۔ ہمارا قانونی نظام ایسا لچر ہے کہ 2012 کے اس واقعہ میں ابھی تک انصاف نہیں ہوسکا۔ قانونی داؤ پیچ میں ان کی پھانسی لٹکی ہوئی ہے اور اب بھی ان راکشسوں کے پاس متبادل بچے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نظرثانی عرضی خارج ہونے کے بعد اب یہ مجرم سپریم کورٹ میں ہی ریویوپوٹیشن داخل کرسکتے ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف کردیا ہے کہ کسی طرح کی ریویو پوٹیشن کی گنجائش نہیں ہے۔ ان کا قصور پوری طرح ثابت ہوچکا ہے۔ ان کے پاس اب کوئی بچنے کی بنیاد نہیں رہی ہے۔ اگر سپریم کورٹ کیوریٹیو پوٹیشن خارج کردیتی ہے تو ان کے پاس صدر کے پاس رحم کی اپیل اخل کرنے کا ہی آخری متبادل بچتا ہے۔ نربھیا کے قصورواروں کو بلا تاخیر پھانسی پر لٹکایا جائے۔ ان ریویو عرضی کو بلا تاخیر نپٹایا جائے یہ دیش کی مانگ ہے۔ آج تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ درندوں میں قانون کا خو ف ختم ہوچکا ہے۔ آبروریزوں کے حوصلہ اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ یہ نہ تو قانون کو کچھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی انسانیت کو۔ اگر نربھیا کے قصورواروں کو بلاتاخیر پھانسی ہوتی ہے تو اس سے پورے دیش میں ایک پیغام جائے گا۔ ان آبروریزوں میں تھوڑا خوف پیدا ہوگا۔ یقینی طور سے بڑی عدالت کا یہ فیصلہ لائق خیر مقدم ہے۔ اس سے بدفعلی جیسے گھناؤنے جرائم کرنے والوں کو سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا اور ان میں ڈر پیدا ہوگا۔ حالانکہ اس کے باوجود دہلی میں خواتین کی سلامتی کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج بھی دیش کی راجدھانی کی گنتی عورتوں کے لئے غیر محفوظ شہروں میں ہوتی ہے۔ 2012 کے اس گھناؤنے واقعہ کے بعد ناراض لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے۔ دہلی میں کئی دنوں تک تحریک چلی تھی۔ اس کانڈ کے بعد عورتوں کی سلامتی کے لئے اوشا مہرہ کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں کئی تجاویز آئیں تھیں لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تک اس کی سفارشوں پر عمل نہیں ہوپایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج پورے دیش میں ان درندوں کی باڑ سے آگئی ہے۔ آئے دن بچوں سے بدفعلی اور حیوانیت کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ دہلی کو ریپ کیپٹل کہا جانے لگا ہے۔ دہلی کی عورتوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر ضروری قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سرکار، انتظامیہ، دہلی پولیس کی ذمہ داری ہے اور اسے لیکر سیاست یا بہانے بازی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی شروعات نربھیا کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکاکر کی جانی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟