دہلی کوڑے کے پہاڑ میں اور ممبئی پانی میں ڈوب رہی ہے

سپریم کورٹ نے منگلوار کو کچرا انتظام کو لیکر ریاستی حکومتوں کے لاچار رویئے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اپنی طرف سے رائے زنیاں کی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ دہلی میں کوڑے کے پہاڑ ہیں اور ممبئی پانی میں ڈوب رہی ہے لیکن حکومتیں کچھ نہیں کررہی ہیں۔ یہ سخت ریمارکس جسٹس مدن بی لوکر و جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے ریاستوں میں کچرا مینجمنٹ کے معاملہ کے دوران دئے۔ بنچ نے کہا جب کورٹ دخل دیتی ہے تو اس پر عدلیہ کی سرگرمی کا الزام لگتا ہے ۔ اسے طاقت بٹوارے کے اصول پر لیکچردیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دائرہ اختیار پر قبضہ جما رہی ہے لیکن کورٹ کیا کرے جب سرکاریں غیر ذمہ دارانہ رویہ اپناتی ہیں؟ کورٹ اس معاملہ میں 7 اگست کو پھر سماعت کرے گی لیکن دہلی کے معاملہ پر 12 جولائی کو سماعت کرنے کا حکم دیا ہے۔ دہلی میں غازی پور، اوکھلا اور بھلسوا میں کوڑے کے پہاڑ پر تشویش جتاتے ہوئے سپریم کورٹ نے پوچھا آخر راجدھانی میں کوڑا مینجمنٹ کی ذمہ داری کس کی ہے سرکار یا لیفٹیننٹ گورنر ؟ عدالت نے دہلی سرکار کو حلف نامہ داخل کرنے اور جواب دینے کو کہا ہے۔ سوچھ بھارت ابھیان کے تحت شہریوں کو اسمارٹ بنانے کے اس دور میں ریاستی سرکاریں صاف صفائی کے تئیں کتنی لاپرواہ ہیں اس کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد میں میگھالیہ، اڑیسہ، کیرل،پنجاب، بہار، چھتیس گڑھ، ہماچل، گووا، مغربی بنگال میں ٹھوس کچرے کے نپٹان پر اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا۔ ناراض سپریم کورٹ نے ان سبھی ریاستوں پر ایک ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا ہے اور یہ کہہ کر پالیسی سازوں کو شرمسار بھی کردیا کہ دہلی کچرہ میں دب رہی ہے اور ممبئی پانی میں ڈوب رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی پھٹکار کے بعد بھی صاف صفائی کے تئیں سرکاروں کے ایسے رویئے سے صاف ہے کہ شہروں کو اسمارٹ بنانا تو دور رہا انہیں ٹھیک ٹھاک صاف بنائے رکھنے کی فکر بھی نہیں کی جارہی ہے۔ اس کے ثبوت آئے دن ملتے ہی رہتے ہیں۔ ممبئی میں مانسون کے دوران شہر کے ڈوبنا کا ہر سال سلسلہ ہوتا ہے لیکن اتنے برسوں میں کوئی کارگر حل نہیں نکل سکا۔ اسی طرح دہلی میں کوڑے اور آلودگی کا مسئلہ بھی چلتا آرہا ہے۔ راجدھانی میں آلودگی کو لیکر دو طالباؤں کے ذریعے دائر عرضی پر دہلی ہائی کورٹ نے بھی دہلی سرکار کی جم کر کھنچائی کی ہے۔ ہائی کورٹ کی چیف بنچ نے سوال کیا کہ آپ کو صرف شہر میں پارکنگ ،ہاؤسنگ اسپیس کی فکر ہے۔ آپ کو لوگوں کی چنتا کیا ہے؟ ان مسئلوں کا مستقبل حل ہونا چاہئے۔ اس میں ہمیں شبہ ہے ۔ ہاں دکھانے کے لئے کچھ فوری قدم ضرور اٹھا لئے جائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟