ٹکٹ کلکٹر سے کیپٹن کول تک کا سفر

مہندر سنگھ دھونی 7 جولائی کو 37 سال کے ہو گئے ہیں لیکن اپنے قریب 15 سال کے انٹر نیشنل کرکٹ کیریئر میں انہوں نے جو دھوم مچائی ہے ایسا اس سے پہلے شاید ہی دیکھنے اور سننے کو ملا ہو۔ 7 تاریخ کادھونی کی زندگی کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ دھونی نے بھی کھل کر 7 نمبر کے ساتھ اپنے رشتہ کو پوری دنیا کے سامنے بیاں کیا ہے۔ دھونی کہتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار ٹیم انڈیا کے ساتھ کینیا گئے تو اپنے لئے جرسی نمبر ڈوھنڈ رہے تھے۔ اس وقت نمبر7 خالی تھا اور وہ انہیں مل گیا۔ دھونی کا اس نمبر کے ساتھ رشتہ جڑ گیا۔ حالانکہ یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ ان کی پیدائش سال کے 7 ویں مہینے کے 7 ویں دن ہوئی۔ ان کی جرسی کا نمبر ہی نہیں بلکہ 7 نمبر ان کی ہر بائیک اور سبھی کاروں کے نمبر پر درج ملے گا۔ یہ ہی نہیں وہ سیون نام کے ایک پرفیوم اور ڈیو کے برانڈ امبیسڈر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ماہی نے پھر سیون کے نام سے ملک و بیرون ملک میں جم کی ایک دوکان بھی کھولی ہے۔ دھونی نے جو کرکٹ دنیا میں عزت کمائی ہے وہ شاید کسی اور کھلاڑی یا کپتان کو نصیب ہوئی ہو۔ آج کھیل شائقین اور ان کے چاہنے والوں کے لئے ان کے جنم دن کی خوشیاں پورے دیش میں ان کے پرستاروں نے جم کر منائیں۔ سوشل میڈیا پر توان کے لئے مبارکباد کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ہی نہیں گزشتہ رات بھارت اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا دوسرا ٹی۔ٹوئینٹی بین الاقوامی میچ ان کا 500 واں میچ تھا۔ اس مقام کو چھونے والے سچن تندولکر اور راہل دراوڑ کے بعد دھونی ایسے تیسرے ہندوستانی کھلاڑی ہیں اور پہلے ایسے کپتان ہیں جنہوں نے آئی سی سی کے تین سب سے بڑے ایوینٹ پر قبضہ جمایا ہے۔ 2007 میں ٹی ۔ٹوئنٹی ورلڈ کپ کو کون بھول سکتا ہے؟ پہلی بار کپتانی کر رہے دھونی نے نہ صرف اپنی بلے بازی سے ٹیم کو چوٹی پر پہنچایا بلکہ کپتانی کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی مثال آج بھی بڑے بڑے مینجمنٹ اسکول کے کورس میں پڑھائی جاتی ہے۔ دھونی ونڈے کرکٹ میں سب سے زیادہ چھکے لگانے والے ہندوستانی کھلاڑی بن گئے ہیں۔ انہوں نے اب تک کل 217 چھکے جڑے ہیں۔ کچھ الگ بات یہ ہے کہ دھونی جنہوں نے اپنے کیریئر کی شروعات ٹکٹ کلکٹر سے شروع کی تھی اور بعد میں بھارت کے لئے ٹرافی کلکٹر بن گئے۔ مزاج سے کافی نرم گو انسان ہیں حال فی الحال میں آئر لینڈ کے خلاف دوسرے ٹی۔ ٹوئنٹی میچ میں جو پلے پچنگ الیون کا حصہ نہیں تھے لیکن اس کھلاڑی کی خوبی دیکھئے کہ ڈرنکس لے کر چلے بیچ میدان میں پانی پلانے میں بھی انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ وہ ٹیم پلئر ہیں اس لئے آج بھی وہ ٹیم کے سب سے زیادہ پسندیدہ کپتان مانے جاتے ہیں۔ شاید ہی کیپٹن کول کو کسی ساتھی کھلاڑی پر برستادیکھا ہوگا۔ کرکٹ کا یہ ستارہ ہمیشہ چمکتا رہے اور ٹیم انڈیا کو جیت دلاتا رہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟