جنرل راحیل شریف کی بوکھلاہٹ ہم سمجھ سکتے ہیں

ہم نے پاکستان کی ایک عادت ابھرتی دیکھی ہے جب بھی کسی سطح پر بھارت۔ پاک بات چیت ہوتی ہے تو پاکستان کی جانب سے کوئی نہ کوئی ایسا بیان آجاتا ہے جس سے کشیدگی مزید بڑھ جائے۔ این ایس اے سطح کی بات چیت پر بھی یہی دیکھنے کو ملا اور اب جب ہند۔پاک رینجرس کی پانچ روزہ کانفرنس 9 ستمبر کو شروع ہوئی ہے تو پاکستانی فوج کے چیف جنرل نے ایک چیلنج بھرے لہجے میں بیان دے دیا۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ اگر پاکستان کے خلاف چھوٹی یا بڑی کیسی بھی جنگ ہوتی ہے تو دشمن کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔پاکستانی فوجی کے سربراہ نے کشمیر کو ادھورا ایجنڈا قراردیتے ہوئے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر دشمن نے کوئی ہمت کی تو اسے ناقابل برداشت نقصان جھیلنا پڑے گا۔ راحیل نے 1965ء کی بھارت۔ پاک جنگ کی 50 ویں برسی پر ایتوار کو راولپنڈی میں فوج کے ہیڈ کوارٹر پر منعقدہ ایک خاص پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے بھارت کا نام نہیں لیا لیکن اشارہ صاف تھا کیونکہ ان کا تبصرہ ہندوستانی فوج کے چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ کے اس بیان کے پس منظر میں تھا جس میں انہوں نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ ہندوستانی فوج مستقبل کی جنگوں کے لئے تیار ہے۔ وہ پاکستان کے ذریعے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی اور جموں و کشمیر کو لگاتار شورش بنائے رکھنے کی حکمت عملی کے سلسلے میں تقریر کررہے تھے۔ یہ بھی فطری ہے کہ جنرل سہاگ نے جو کچھ کہا ہے اس کا جواب اسی انداز میں پاک فوج دے۔ کیونکہ پاکستان میں تو فوج کی ہی حیثیت سب سے بڑی ہے۔ پاکستانی فوج کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ دیگر ملکوں کے پاس تو ایک فوج ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فوج کے پاس ایک دیش ہے۔ اپنی اس حیثیت کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔پاک فوج مسلسل تلخی کا ماحول بنائے رکھے لیکن پاکستان پر بھارت دیش کی سب سے بڑی پریشانی ہے یا یوں کہیں کہ ایک واحد مسئلہ ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ فوج بار بار پاکستانی عوام کو یہ یاد دلاتی رہے کہ یہ فوج ہی ہے جس نے دیش کو دشمن (بھارت) سے بچایا ہوا ہے۔ کشیدگی بھرے ماحول میں پاکستان کی طرف سے دی جانے والی دھمکیاں کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ پہلے سرتاج عزیز پھر وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھیوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے نیوکلیائی ہتھیار دکھانے کیلئے نہیں رکھے ہیں؟ جب بھارت نے ان کوری بھبکیوں پر خاص توجہ نہیں دی تو اب پاکستانی فوج کے چیف آگے آگئے ہیں۔ آج پاکستانی سیاست کی زمینی حقیقت یہ ہے ویسے تو نام کی مقبول چنی ہوئی نواز شریف سرکار ہے لیکن اس کی حکومت راجدھانی اسلام آباد تک نہیں چلتی باقی دیش کی بات تو چھوڑیئے۔ وہاں اصل حکومت چلتی ہے پاکستانی فوج اور ان جہادیوں تنظیموں کی۔ پاک فوج میں اس وقت دو طرح کی جنرل ہیں ایک وسکی جنرل اور دوسرے جہادی (لمبی لمبی دھاڑی والے) جنرل جو جہادی جنرل ہیں۔ وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ ہمارا دشمن بھارت ہے اور ہم ہر ممکن طریقے سے بھارت کو نقصان پہنچائیں گے۔ اسی کڑی میں ہم آئی ایس آئی کو بھی شامل کرتے ہیں۔ یہ ان جہادی تنظیموں کو آگے کر کے کشمیر اور بھارت کو کمزور اور شورش پھیلانے میں لگے رہتے ہیں۔ جو وسکی جنرل ہیں وہ 1971ء کی لڑائی میں لیفٹیننٹ و کیپٹن وغیرہ رینک کے فوج کے افسر تھے وہ آج جنرل بنے ہوئے ہیں۔ یہ 1971ء کا انجام بھولنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنی فوج کے چھوٹے افسروں کو1971 کی ہار کا بدلہ لینے کے لئے قسمیں دلاتے رہتے ہیں۔ جب یہ جنرل جموں وکشمیر میں حالات مسلسل ٹھیک ہونے کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں تو یہ بوکھلا جاتے ہیں۔ بھارت کو دشمن نمبر ون بنانے کے لئے پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کشمیر راگ رٹتا رہتا ہے عوام کی بے روزگاری اور مہنگائی، بیماری وغیرہ مسائل سے توجہ ہٹاتا رہتا ہے۔ کشمیر کا راگ رٹنے سے پاک عوام کی توجہ بلوچستان ،سندھ میں بڑھتی علیحدگی کے مسئلے سے بھی ہٹاتا رہتا ہے۔ ہم جنرل راحیل شریف کی مجبوریوں اور بوکھلاہٹ کو سمجھ سکتے ہیں، بس انہیں اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ پہلے آپ اپنا گھر سنبھالئے ہندوستان اور کشمیر کو بھول جائیں ان کوری بھبکیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟