بچوں کے بستے کا بوجھ کم کرنے کیلئے منیش سسودیا کا اعلان!

دہلی کے نائب وزیر اعلی اور وزیر تعلیم منیش سسودیا نے اعلان کیا ہے کہ راجدھانی کے سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کلاس تک پڑھنے والے بچوں کو اب اسکول کے لئے بھاری بستے کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا۔ ہم جناب منیش سسودیا کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ میں نے اسی کالم میں کئی بار اسی مسئلے کی طرف توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی ہوگی۔ قارئین کو شاید یاد ہو بچے سے بھاری بستہ نامی عنوان سے بچوں پر کتابیں کاپیں وغیرہ کا چھوٹے چھوٹے بچوں پر وزن سے نقصان بتایا۔ آخر دہلی کے نائب وزیر اعلی نے اس مسئلے کا حل تلاش کرلیا۔ دہلی سرکار نے فیصلہ کیا ہے کہ آٹھویں کلاس تک کے نصاب میں 25 فیصدی کٹوتی ہوگی اور اس کی پوری تیاری بھی کرلی گئی ہے۔ اکتوبر ماہ (اسی سال ) سے یہ فیصلہ نافذ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ اسکولوں میں اب کھیل ، تھیٹر، ٹیلنٹ، کلچر ، موسیقی کو بھی فروغ ملے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے برس تک بارہویں کلاس تک کہ نصاب میں بھی25 فیصد کمی ہوگی۔سسودیا نے کہا کہ اسکول جانے والے بچوں کی نشو و نما کے فروغ کے لئے سرکار نے یہ فیصلہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بچوں کے بستوں کا بوجھ کم کرنے کی بات کہی تھی جس کہ پیش نظر محکمہ تعلیم نے اس سمت میں کام شروع کردیا ہے۔ محکمے نے بہت سے ماہرین تعلیم اساتذہ ، والدین اور دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر اس کا خاکہ تیار کرلیا ہے۔ بچوں کا بچپن بستوں کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے۔ نصاب میں کچھ ایسے مضمون ہیں جن کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لئے بچوں کو غیر ضروری طور سے پڑھائے جانے والے مضامین کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے۔ بچوں کے مکمل ڈیولپمنٹ کے لئے یہ ضروری ہے کہ غیر ضروری نصاب کو گھٹا کر کھیل،فن، موسیقی، ڈرامہ جیسے موضوعات کے لئے وقت نکالا جائے۔ بچے کی مکمل شخصیت بنانے کے لئے ایسے ٹیلنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی کیا ہورہا ہے کہ بھاری بھرکم سلیبس کی وجہ سے بچوں کو کتابیں کاپیوں سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ باقی دیگر فنون پر تو توجہ نہیں دے سکتے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کو گھر میں بھی اتنا ہوم ورک کرنا پڑتا ہے کہ انہیں وقت ہی نہیں ملتا۔ ماں باپ کی الگ پریشانی اور ٹیوشنوں کا چکر ۔ سابق صدر جمہوریہ مرحوم ڈاکٹر اے پی جے کلام کے ساتھ اپنی ایک ملاقات میں ان کی تجاویز کا ذکر کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے کہا کہ کلام صاحب نے کہا تھا کہ اسکولی تعلیمی پاس ہونے کے بعد بچوں کو دو سرٹیفکیٹ دئے جانے چاہئیں پہلا تعلیمی صلاحیت کا اور دوسرا ٹیلنٹ ڈیولپمنٹ سے وابستہ اہلیت کا۔ اس سے بچوں کو بارہویں کلاس کے بعد ہی اچھے روزگار کے موقعے ملیں گے۔ وہ آگے کی پڑھائی یا فن کے میدان میں آگے بڑھ سکیں گے۔ منیش جی نے کہا کہ سرکار کلام صاحب کی ان تجاویز کی سمت میں پہلے سے ہی کام کررہی ہے اسی سلسلے میں بچوں کی اسکل ڈیولپمنٹ کو بڑھاوا دیا جائے گا۔ اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟