عدلیہ میں کرپشن کا سوال!
سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس وی آر گوائی نے کہا ہے کہ عدلیہ میں کرپشن اور دھاندلی کے واقعات کا جنتا کے بھروسہ پر منفی اثر پڑتا ہے اس سے پورے سسٹم کے یکجہتی میں بھروسہ کم ہوتا ہے ۔برطانیہ کے سپریم کورٹ میں جوڈیشیل جواز اور پبلک بھروسہ بنائے رکھنے پر ایک گول میز کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد سرکار کے ساتھ کوئی دیگر ذمہ داری لیتا ہے یا چناو¿ لڑنے کے لئے عدالتی بنچ سے استعفیٰ دیتا ہے ،تو یہ اہم ترین اخلاقی تشویشات پیدا کرتا ہے ۔اور اس کی پبلک جانچ ہونی چاہیے ۔سی جے آئی نے کرپشن کے مسئلے پر کہا کہ جب بھی کرپشن اور رویہ کے معاملے سامنے آئے ہیں ۔سپریم کورٹ نے مسلسل اپنے فرض سے تلانجلی دینے کے خلاف فوری اور مناسب قدم اٹھائے ہیں ۔اس کے علاوہ ہر سسٹم ،چاہے وہ کتنا بھی مضبوط کیوں نا ہو،پیشہ آور برتاو¿ کے مسئلوں کے لئے انتہائی حساس ہوتا ہے ۔سی جے آئی نے کہا کہ عدلیہ میں کرپشن کے معاملوں سے لوگوں کے دل میں اس کے تئیں بھروسہ کم ہوتا ہے حالانکہ اس بھروسہ کو ان مسئلوں پر فوری فیصلہ کن اور شفاف کاروائی سے دوبارہ قائم کیا جاسکتا ہے ۔بھارت میں بھی کئی ایسے معاملے سامنے آئے ہیں ۔سپریم کورٹ نے مسلسل اس لعنت کو دور کرنے کے لئے فوراً مناسب قدم اٹھائے ہیں ۔سی جے آئی کا یہ تبصرہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس یشونت ورما پر کرپشن کے الزامات کے پیش نظر آیا ہے ۔ورما کے دہلی میں سرکاری گھر سے بڑی تعداد میں نقدی برآمد کی گئی تھی ۔جسٹس گوائی نے کہا کہ ہر جمہوریت میں عدلیہ کو نہ صرف انصاف فراہم کرنا چاہیے بلکہ اسے ایک ایسے ادارہ کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے جو اقتدار اعلیٰ کے سامنے سچائی کو رکھ سکے ۔ہم سی جے آئی کے الفاظ کے لئے ان کی تعریف کرتے ہیں ۔اگر ہم پچھلے چیف جسٹس کھنہ کو ہی لے لیں تو ان سے پہلے کئی چیف جسٹس پر اقتدار کی طرف جھکنے کے الزام لگتے رہے ہیں ۔کچھ کو تو اقتدار کے حق میں فیصلے دینے کے لئے ریٹائر ہونے کے بعد ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا ۔چیف جسٹس گوائی نے ہندوستانی عدلیہ کے اندر جڑیں جمع یا جم چکی ہیں ان مسئلوں کو بڑے صاف الفاظ میں قبول کیا جنہیں لے کر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ۔پچھلے کچھ برسوں میں چیف جسٹس اور ہائی کورٹ کے کچھ ججوں کے سیاسی دباو¿ میں یا ذاتی مفاد کی تکمیل کے مقصد سے فیصلے سنانے کو لے کر کافی ناراضگی ظاہر کی جاتی رہی ہے ۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاسی فائدے اور حکمراں اعلیٰ کے دباو¿ میں یا ذاتی مفاد کو لے کر کافی ناراضگی جتا رہی ہے ۔سچائی تو یہ ہے کہ سیاسی فائدے اور حکمراں اعلیٰ کے دباو¿ سے نجات پائے بغیر عدلیہ صحیح معنی میں اپنی ذمہ داری کو صحیح ڈھنگ سے نبھا نہیں سکتی۔اس لئے چیف جسٹس کی اس سمت میں کوشش قابل تحسین ہے ۔جمہوریت میں عدلیہ پر جنتا کا بھروسہ اس لئے بھی بنے رہنا بہت ضروری ہے کہ یہی ایک ستون ہے جس پر آئین کی حفاظت کی ذمہ داری اور سیاسی اور سسٹم میں کرپشن پر نکیل کسنے کا کافی اختیار ہے ۔چیف جسٹس گوائی نے یہ بھی صاف کر دیا کہ دیش میں نہ تو عدلیہ ،ایگزیکٹو اور میڈیا سب سے بالاتر ہیں ۔سب سے اوپر دیش کا آئین ہے اور دیش آئین سے ہی چلے گا ۔سی جے آئی کے بیان کی ہم تعریف کرتے ہیں ۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں