چین ،پاکستان اور طالبان کی دوستی!

پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈار اپنے دورہ چین پورا کر چکے ہیں ۔گزشتہ بدھ کو اسحاق ڈار نے افغانستان کے نگراں وزیرخارجہ امیر خان مفتی اور چین کے وزیرخارجہ وانگ شی سے بھی ملاقات کی ۔تینوں ملکوں نے چین ،پاکستان اقتصادی کوریڈور کا افغانستان تک بڑھانے پر رضامندی جتائی ہے ۔پاک وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ چین اور پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیسیٹو (بی آر آئی ) اشتراک کے وسیع انسٹرکچر کے تحت چین ،پاکستان اقتصادی کوریڈور کو افغانستان تک بڑھانے کی حمایت کی ہے ۔چین نے پاکستان اور افغانستان کی علاقائی یکجہتی اور سرداری اور قومی وقار کے تحفظ کرنے کی بھی حمایت کی ہے ۔بھارت سی پی ای سی کی تنقید کرتا رہا ہے۔کیوں کہ یہ گلیارہ پاکستان حکمراں کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے ۔سی پی ای سی چین کی بیلٹ اینڈ روڈ حکمت عملی پروجیکٹ کا حصہ ہے اسی لیے بھارت اس کی مخالفت کرتا ہے۔یہ سہ فریقی میٹنگ وزیرخارجہ ایس جے شنکر کی امیر خان مفتی سے بات چیت کے کچھ دن بعد ہوئی ہے ۔حالانکہ بھارت نے ابھی تک طالبان سرکار کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے جب اس بارے میں وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے کچھ رپورٹیں دیکھی ہیں ۔اس کے علاوہ ہمیں اس بارے میں اور کچھ نہیں کہنا ہے ۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن زیان نے بیجنگ میں ہوئی اس میٹنگ کو ایک غیر رسمی بتایا ہے ۔چین کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ،افغانستان اور پاکستان میں سفارتی رشتوں کو آگے بڑھانے کی واضح خاکہ پیش کیا ہے ۔چین اور پاکستان ،افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی کی حمایت کرتا ہے ۔چین سال 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان سرکار کے ساتھ سیاسی تعلقات جاری رکھنے والے شروعاتی ملکوں میں سے ایک تھا ۔اس ملاقات کو پاکستان کی بھارت کے خلاف ڈپلومیٹک حکمت عملی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر ایک اور قدم ماناجاسکتا ہے ۔چین ، پاکستان اور افغانستان اگر قریب آتے ہیں تو بھارت کی خارجہ پالیسی کو ایک اور زبردست جھٹکا لگتا ہے ۔ویسے ہی آپریشن سندور میں اتنا تو ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی و ڈپلومیسی پوری طرح سے ناکام رہی ہے ۔اس کی جیتی جاگتی مثال ہے آپریشن سندور کے دوران سوائے اککا دککا دیش کے اور کوئی دیش بھارت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا ہے۔مانیں یا نا مانیں ہمارے وزیرخارجہ ایس جے شنکر بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔مودی جی کے لئے ایک بوجھ بن گئے ہیں جنہیں بدلنا انتہائی ضروری ہے۔وزیراعظم نریندر مودی مشترکہ پارٹیوں کے نمائندے وفد بیرون ممالک میں بھار ت کے موقف کو بتانے کا فیصلہ لائق تحسین ہے ۔یہ بھی اچھا قدم ہے کہ اس کرائسس کے وقت پوری اپوزیشن سرکار اور مرکزی حکومت مل کر کام کریں۔پاکستان ڈپلومیٹک اور خارجہ پالیسی میں ہمار ے سے بہتر رہا ہے ۔اب اگر چین پاک و طالبان بھی ایک اسٹیج پر آجاتے ہیں تو بھارت کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ طالبان سرکار بھول گئی ہے کہ اس کی باز آبادکاری میں بھارت نے کتنی مدد کی تھی اور کررہی ہے ۔لیکن چین سامنے شاید ہی کوئی ٹک سکے اور چین ہمیں گھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!