کیا کہتے ہیں سابق را چیف دللت !

بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ ایند اینالیسس ونگ ( را ) کے سابق چیف اور آئی پی ایس افسر امرجیت سنگھ دللت جو کہ اٹل وہاری واجپائی سرکار میں پی ایم او میں بطور جموں وکشمیر امور کے مشیر رہے نے پہلگام حملے پر بی بی سی سے ایک اہم بات چیت کی ۔آج کے پش منظر میں میرے خیال میں دیش کو کچھ باتوں پر ضرور غور کرنا چاہیے ۔پیش ہے ان کے انٹرویو کے کچھ اہم اقتصابات :دللت نے اپنے کریئر کے شروعاتی برسوں میں بطور جموں وکشمیر امور کے ایڈوائزر کی شکل میں کام کر چکے ہیں اور انہوںنے جموں وکشمیر میں انٹیلی جنس ویورو کا کام بھی دیکھا ہے ۔دللت کہتے ہیں کہ پہلگام میں جو ہوا وہ بہت برا ہوا اور اسے سیکورٹی خفیہ مشینری کی کوتاہی بتایا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ پہلگام حملہ ایک سیکورتی ناکامی ہے ۔وہاں کسی قسم کی سیکورٹی ہی نہیں تھی ۔جہاں ہم انٹیلی جینس یا خفیہ مشینری کی بات کرتے ہیں وہاں ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کشمیر میں جو سب سے ضروری انٹیلی جینس ہے وہ اب آپ کو کشمیریوں سے ہی ملے گی تو کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنا بہت ضروری ہے ۔میں کسی کو قصور وار نہیں کہنا چاہتا لیکن جموں وکشمیر میں قانون و نظام کی ذمہ داری تو مرکزی سرکار کے ہاتھ میں ہے ناکہ وہاںکے وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔تو مرکزی سرکار کو دیکھنا چاہیے کہ وہاں کے ایل جی کو دیکھنا چاہیے تھا ۔پہلگام حملے سے پہلے جموں وکشمیر میں سیاحوں کی تعدادمیں کافی اضافہ ہوا تھا اور سرکاری اعداد شمار کے مطابق جہاں 2020 میں 24 لاکھ سے زیادہ سیاح آئے تھے ۔وہی سال 2023 کے ختم ہوتے ہوتے یہ تعداد دو کروڑ ایک لاکھ سے پار ہو گئی تھی ۔لیکن کیا انتہا پسند تشدد میں کوئی کمی اائی ہے ۔ساو¿تھ ایشیا ٹورازم پورٹل کے مطابق سال 2012 میں جموں وکشمیر میں عام شہریوں کی موت انتہا پسندوں کے ذریعے تشدد میں ہوئی ،اسی برس 18 سیکورٹی ملازم بھی شہید ہوئے ۔84 انتہا پسند مارے گئے تھے ۔ا س کے مقابلے سال 2023 میں 12 شہریوں کی موت ہوئی اور 23 سکورٹی ملازم مارے گئے ۔87 شدت پسند بھی مارے گئے ۔سال 2024 میں عام شہری سمیت 263 سیکورٹی ملازم اور 69 شدت پسند مارے گئے تھے ۔یعنی حملے جاری تھے۔لیکن سرکار کے بیانوں میں جموںوکشمیر میں شدت پسندی تقریباً ختم ہو گئی ہے کا دعویٰ کیا جارہا تھا ۔ساتھ ہی سیاح ایسے علاقوںمیں بھی جانے لگے جہاں انتظامیہ نے سیکورٹی کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا تھا ۔جموں وکشمیر میں پچھلے دو برسوں میں زیادہ حملے ہوئے ہیں ۔ٹور ازم ایک بات ہے اور نارملیسی دوسری چیز ہے ۔جب بھی ہم نے کہا کہ جموں وکشمیر میں حالات ٹھیک ہیں تبھی آتنکی حملے زیادہ ہو گئے ۔جس طرح سیاح بڑھ رہے تھے لوگ اپنی مرضی سے وہاں جارہے تھے تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سرکار کو خطرہ پہلے ہی نظر آجانا چاہیے تھا ۔حملے میں مار ے گئے لوگوں کے عزیزوں نے بتایا کہ پہلگام میں لوگوں کا مذہب پوچھ کر مارا گیا تو دللت نے کہا کہ پہلگام میں جو ہوا وہ ہندو مسلم اشو نہیں ہے ۔نا جموں وکشمیر ہے اور نا ہی بھارت میں کوئی ہندو مسلم سوال ہے ۔بلکہ یہاں ہندو مسلم ایک ہیں ۔یہ پیغام صاف طور پر جانا چاہیے ۔آج خاص طور سے میں کہوں گا کہ کشمیریت کو ہمیں کھونا نہیں چاہیے ۔اسے زندہ رکھنا بہت ضروری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!