کشمیر کی بیٹی نے ہی دہشت گردوں کو دیا کھلا چیلنج!

کشمیر میں آہستہ آہستہ امن چین کا ماحول لگتاہے اور دہشت گردی کے سوداگروں کو راس نہیں آ رہا ہے ۔ اب آتنکی تنظیموں کی مایوسی صاف نظر آنے لگی ہے منگل کی شام کو دہشت گردی کی تین وارداتوں نے سیکورٹی فورس کی پریشانی بڑھادی ہے ۔ کشمیر لوٹنے کی امید لگائے کشمیری پنڈت ان سے سہم اٹھے ہیں ۔ سرینگر اور باندی پورہ میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میںالگ الگ تین آتنکی حملوں میں تین شہری مارے گئے ۔ اس طرح سرینگر میں کم سے کم پانچ حملے ہوئے ان میں مارے گئے لوگوں میں سرینگر کے دوا ڈیلر ماکھن لال سنگھ، سڑک کے کنارے ریڑی لگا نے والے ویریندر پاسوان اور ایک ٹیکسی اسٹینڈ یونین کے صدر محمد شفیع لون شامل ہیں ۔ منگل کی صبح دوا ڈیلر ماکھن لال بندو کے گھر پر بدھوار کی صبح ان کے گھر پر غم ظاہر کرنے کیلئے لوگ جمع ہوئے ان کے انتم سنسکار سے پہلے ان کی بیٹی شردھا بندو نے والد کے مارنے والوں کو کھلا چیلنچ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بندوق ہے تو میرے پاس والد کا دیا تعلیم کا ہتھیا ر ہے جس کسی نے میرے والد کو گولی ماری ہے میں اسے چیلنج کرتی ہوں کہ وہ میرے سامنے آمنے آئے ۔ سیا ست دانوں نے تمہیں گولی اور پتھر دیئے تم بندوقوں اور پتھروںسے لڑنا چاہتے ہو ؟ یہ بزدلی ہے۔ سبھی نیتا تمہا را استعمال کر رہے ہیں ۔ آ و¿ لڑ نا ہے تو تعلیم کو ہتھیا ر بنا و¿۔ میں پروفیسر ہوں، میں نے زیرو سے شروعات کی تھی میرے پیتا نے ایک سائیکل پر شرعات کی تھی میر ا بھائی مشہور ڈاکٹر ہے میری ماں تک دوکان چلاتی ہے۔۔۔یہ ہمیںماکھن لال بندو نے بتایا میں ہندو ہوں۔۔۔مگر میں نے قرآن پڑھا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ تم ایک آدمی کو مار سکتے ہو۔ مگر اس کے جذبے کو نہیں مار سکتے ۔ ماکھن لال بندو کا جذبہ بھی زندہ رہے گا میرے پیتا ہمیشہ کہا کرتے تھے میں تو کام کرتے کرتے ہی مروں گا ۔ سرینگر میں کشمیر ی پنڈت ماکھن لال بندو کے قتل نے ایک بار پھر وادی میں کشمیری پنڈتوں کی سیکورٹی کا سوال کھڑا کر دیا ہے ۔ اس طرح کا واقعہ پہلانہیں ہے ۔ جنوری 2021سے اب تک جموو کشمیر کے الگ الگ ضلعوں میں کم سے کم پانچ کشمیری پنڈت اور غیر مقا می لوگوں کا قتل ہو چکا ہے ۔ ان میں سیا سی ورکر ،پولس ملازمین ، کاروبار ی شامل ہیں ۔ان سبھی قتلوں کو جوڑ نے والی بات یہ ہے کہ سبھی دہشت گردوں کے نشانو ں پر ہونے کے باوجود لمبے عرصے سے وادی میں رہ رہے ہیں ۔ اور یہا ں سرگرم دہشت گرد تنظیموں پر چوطرفہ شکنجا کس چکا ہے ۔ سب سے بڑی مشکل انہیں مقامی لوگوں سے حمایت نہیں مل رہی ہے۔ پہلے وہ ان کو پناہ دیتے رہے ہیں ۔کبھی سیکورٹی فورس ان کو پکڑ نے کے کیلئے آتی تو وہ گھیرا بند ی کرتے تھے اب پہلے جیسا نہیں ہوتا ۔ مقا می کشمیر ی بھی اب سمجھ چکے ہیں کہ ان کا مقابلہ دہشت گردی سے نہیں بلکہ قومی دھارا میں شامل ہو کر ترقی اور تعلیم سے ہے ۔ حریت کے لیڈر اور کٹر پسند سلاخوں کے پیچھے ہیں ایسے میںپاکستان اور اس کی پالی تنظیموں کی مایوسی سامنے آرہی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟