لکھیم پور کھیری کی افسوسناک واردات!

اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے دوران بھڑکے تشدد بہت ہی افسوسناک ہے ۔اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس واردات میںچار کسانوں سمیت آٹھ لوگوں کی موت ہو گئی ۔یوپی کے لکھیم پور کھیری کی تکونیا قصبہ میں اتوار کو مرکزی وزیر مملکت داخلہ اجے کمار مشرا کے بیٹے کی گاڑی سے کچل کر مارے گئے کسانوں اور اس کے بعد دو بھاجپا ورکروں اور ایک صحافی اور اس کے ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر مارڈالنے کی بربریت آمیز واقعہ صرف یہ ایک فطری ناراضگی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ پچھلے کچھ دنوں سے چلی آرہی کشیدگی کا نتیجہ ہے جسے ٹالنے میں انتظامیہ پوری طرح ناکام رہا ہے ۔تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج میں لکھیم کھیری حلقہ کے پہلے سے آندولن کررہے کسان 25 ستمبر کو دئیے گئے مرکزی وزیر مملکت داخلہ اجے مشرا کے بیان سے ناراض تھے جس میں انہوںنے مبینہ طور سے مظاہرین کسانوں سے کہا تھا کہ سدھر جاو¿ ورنہ دو منٹ میں سدھار دیں گے ۔لکھیم پور کھیری میں اترپردیش کے نائب وزیراعلیٰ کیشب پرساد موریہ کے مجوزہ پیغام کے دوران کسانوں نے زرعی قوانین کے ساتھ ہی مشرا کے خلاف بھی مظاہر ہ کیا ۔اسی دوران کسانوں نے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کے ساتھ بھڑنت ہو گئی ۔اس موقع پر کسان مظاہرین نے نائب وزیر اعلی کو کالے جھندے دکھانے کا طے کیا ۔وہاں ہزاروں کی تعداد میں کسان جمع تھے ۔اس وجہ سے نائب وزیراعلیٰ نے وہاں پہونچنے کا اپنا پروگرام بدل دیا ۔الزام ہے کہ اس سے چڑھ کر وزیر مملکت داخلہ کے بیٹے نے کچھ بھاجپا ورکروں کے ساتھ دو بڑی گاڑیوں سے کسانوں کو کچل دیا اس میں چار کسان مارے گئے ۔اور درجنوں زخمی ہو گئے ٹکر مارنے والی دو گاڑیوں بیلنس بگڑ کر خود پلٹ گئیں اور پھر کسانوں نے اس میں آگ لگا دی اس طرح ایک ڈرائیور سمیت چار بھاجپا ورکروں کی بھی موت ہو گئی ۔کسانوں کا الزام ہے کہ منتری نے بیٹے سوچی سمجھے پلان کے تحت اس واردات کو انجام دیا جبکہ منتری اور اس کے بیٹے کا الزام ہے کہ وہ ان گاڑیوں میں سوار نہیں تھے ۔کسانوں نے ان گاڑیوں پر پتھراو¿ کیا جس سے گاڑی بے قابو ہو کر ان سے ٹکرا گئی ۔سچائی کیا ہے یہ تو منصفانہ جانچ سے ہی پتہ چلے گا ۔مگر اس واردات سے فطری طور پر کسان ناراض ہیں دراصل اس واردات میں مرکزی وزیر کی شمولیت کے کچھ پہلو موجود ہیں ۔جن کے چلتے لوگ ان کے بیان پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں ۔کچھ دنوں پہلے دو جگہ ریلیوں کو خطاب کرتے ہوئے آندولن کررہے کسانوں کو پبلک طور سے دھمکایا تھا اور وہ اس طرح آندولن کرنا بند کریں ورنہ ان کو سبق سکھایا جائے گا ۔اس کے بعد جب کسان سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر کالے جھنڈے دکھا رہے تھے تبھی منتری جی نے کھڑکی کھول کر انگوٹھا نیچے کی طرف اشارہ کیا تھا جس کا مطلب تھا کہ تم ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے اس علاقہ میں چل رہی تحریک اب تک پرامن اور جمہوری رہی اس لئے کسانوں کے پتھراو¿ کرنے یا مشتعل شکل اختیار کرنے کی بات لوگوں کے گلے نہیں اتر رہی ہے کیوں کہ اتر پردیش میں کچھ مہینوں بعد اسمبلی چناو¿ ہیں لہذا اس بات کا اندیشہ ہے کہ زرعی قوانین پر سیاسی ٹکراو¿ بڑھ سکتا ہے ۔لکھیم پور کھیری کی اس واردات کو اپوزیشن پارٹیاں طول دے سکتی ہیں ۔ہم تو بس اتنا ہی کہیں گے کہ یہ واردات افسوسناک ہے ۔جس سے تھوڑی سی سمجھداری سے ٹالا جا سکتاتھا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟