گائے کو کسی دھرم سے نہ جوڑیں !

الہٰ آباد ہائی کورٹ نے کہا گو¿ رکچھا کو کسی دھرم سے جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے اور گو¿ کو قومی جانور ڈکلیئر کیا جانا چاہئے ساتھ ہی گو¿ رکچھا کو بنیادی حق بتایا جانا چاہئے جسٹس راکیش کمار یادو نے گو¿ رکچھا کے معاملے میں جاوید نامی شخص کی ضمانت عرضی خارج کرتے ہوئے اہم رائے زنی کی تھی کورٹ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کی جب کلچر اور اعتماد کو ٹھینس پہونچتی ہے تو دیش کمزور ہو جاتا ہے عدالت نے کہا بنیادی حق نہ صر ف گو¿ ماس کھانے والوں کا مخصوص حق ہے بلکہ جو لوگ گائے کی پوجا کرتے ہیں اورمالی طور سے گائیوں پر منحصر ہیں انہیں بھی بہتر زندگی جینے کا حق ہے گو¿ ہتھیا روک تھام ایکٹ کی دفعہ 3,5اور 8کے تحت جاوید پر الزام ہے عدالت نے کہا گو¿ رکچھا صرف کسی ایک دھرم کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ گائے دیش کا کلچر ہے اور اس کی حفاظت ہر کسی کی ذمہ داری ہے ۔ پھر چاہے آپ کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں عدالت نے کہا بھار ت میں 29میں سے 24ریاستوں میں گﺅ ہتھیا پر پابندی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 48میں بھی کہا گیا ہے کہ گائے کی نسل کی حفاظت کی جائے اور دودھ دینے والے اور بھوکے جانور سمیت گﺅ ہتھیا پر روک لگائی جائے گی ایک گائے اپنی پوری زندگی میں 410سے 460لوگوں کو دودھ فراہم کرتی ہے جبکہ گﺅ ماس نے صرف 80لوگوں کو پیٹ بھرتا ہے گائے کی مہما ایسی ہے کہ بھکت کبھی رسکھان نے بھی کہا تھا کہ ، جنم ملے تو نند کی گائیوں کی بیچ ملے ۔ کورٹ نے کہا کہ زندگی کا حق مارنے کے اختیار سے اوپر ہے گﺅ ماس کھانے کاحق کا کبھی بنیادی حق نہیں مانا جا سکتا ۔ گائے تب بھی کار آمد ہوتی ہے جب وہ بوڑھی یا بیمار ہوتی ہے گوبر اور ذراعت اور دواو¿ں کی تیاری میں بہت گاریگر ہوتی ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟