کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کو ہوئے 6 مہینے!

کسانوں کے تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ ابھی بھی جاری ہے ۔سندھو بارڈر پر کسانوں کا احتجاج کرتے ہوئے 6 مہینے سے اوپر ہو گئے ہیں ۔اتوار کو مظاہرے کا 185 واں دن تھا ۔کسانوں کا کہنا ہے کہ جب تک ان کی مانگیں پوری نہیں ہو جاتی تب تک وہ مظاہرہ کرتے رہیں گے ۔دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کی رہنمائی کررہے مشترکہ کسان مورچہ کی طرف سے جمع کو بیان جاری کر کے کہا گیا کہ ان کو آندولن کرتے ہوئے 6 مہینے پورے ہو چکے ہیں ۔آندولن کو دیکھتے ہوئے ہم نے سندھو بارڈر پر پہلے پا نی لنگر اور رہنے کی سہولت تھی اب یہاں پر سینکڑوں کلو دودھ کی سیوا روز ہو رہی ہے ساتھ ہی دیگر سماجی انجمنوں نے بھی دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کے رہنے اور کھانے اور طبی اور دیگر ضروری سیوا کا انتظام کیا ہے ۔یہ آندولن ایک لمبی لڑائی ہے مرکزی سرکار ان قوانین کو واپس نہ لیتے ہوئے کسانوں کو دیگر مسئلوں میں الجھا کر ان کے صبر کا امتحان لے رہی ہے لیکن کسانوں کے لگاتار جوش نے سرکار کو مجبور کیا ہوا ہے آنے والے وقت میں یہ لڑائی اور مضبوط ہوگی ۔لگتاہے کہ سرکار نے کسانوں کی فکر کو وزیراعظم کسان امدادی رقم تک محدود مان لیا ہے ۔اور آندولن کررہے کسانوں کو چند سرپھرے لوگوں کا آندولن ما ن کر ان کی فکر کرنا چھوڑ دی ہے دونوں طرف ضد سوا ر ہے ۔کسانوں کا کہنا ہے کہ سرکار تینوں قوانین واپس لے تو وہ گھر واپس لوٹ جائیں گے ۔جبکہ سرکار کا کہناہے کہ کسان تینوں قوانین کو واپس لینے کی مانگ چھوڑ دے تو زرعی قوانین میں کچھ ترمیم کی جا سکتی ہے ۔کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہم بھی اپنے گھر جانا چاہتے ہیں لیکن کورونا کی پہلی لہر میں بھی سرکار نے ہماری نہیں سنی تو اب دوسری لہر سے کسے ڈرا رہے ہیں کسان لیڈر راکیش ٹکیت کا کہنا ہے کہ سرکار نے کسانوں کو پتلے پھوکنے پر مجبور کیا ہے ۔سرکار کو پہلے طے کرنا ہوگا کورونا وبا بڑی ہے یا تینوں زرعی قوانین اگر بیماری بڑی ہے تو سرکار تینوں زرعی قوانین منسوخ کرکے کسانوں کی گھر واپسی کا راستہ کیوں نہیں کھولتی ۔ٹکیت نے تلخ لہجہ میں آگاہ کیا کہ سرکار اپنی ضد پر اڑی ہے تو کسان اگلے عام چناو¿ یعنی 2024 تک سرحدوں پر ڈٹے رہیں گے لمبی خاموشی کے بعد دہلی کی سرحدوں پر پھر آندولن کی گونج سنائی دی ہے اس سے لگتاہے کہ کسان کھیتوں سے اپنے ضروری کام نپٹا کر لوٹنے لگے ہیں ۔جب معیشت کے دوسرے سیکٹر مضر نتیجہ دے رہے ہوں تو ایسے میں کساوں کی بات غور سے سنی جانی چاہیے ۔اور اس معاملے کو نپٹا دینا چاہیے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟