مرکز کی تجویز سے دہلی سرکار سے ٹکراو ¿ بڑھے گا!

جب سے دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بنی ہے اختیارات کو لیکر آئے دن ٹکراو¿ کے حالات بنے رہتے ہیں ۔ لفٹیننٹ گورنر کے بہانے مرکز اور ریاستی سرکار کے اختیارات کا معاملہ بہت بڑھ گیا تو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑی اور کچھ وقت تک پھر حالات بحال ہوگئے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا جس سے اختیارات کا صاف طور پر بٹوارہ ہو یہی وجہ ہے کہ کچھ وقفے کے بعد پھر کوئی ایسا اشو یا نکتہ سامنے آجاتا ہے جس پر دہلی اور مرکزی سرکار کے دمیان کھینچ تان بڑھنے لگتی ہے اب بدھ کے روز مرکزی حکومت نے جس طرح لیفٹننٹ گورنر کو زیادہ اختیارات دینے کی ایک تجویز کو کیبنٹ نے منظوری دی ہے اس سے صاف ہے کہ دہلی سرکار کے ساتھ ایک بار پھر ٹکراو¿ کے حالات بنیں گے دہلی کے لیفٹننٹ گورنر و دہلی حکومت کے اس دمیان اختیارات کو لیکر جاری جنگ کے درمیان اب مجوزہ بل میں ایل جی کو دہلی سرکار کو طے حد میں آئینی اور انتظامی تجاویز پندرہ دن پہلے بھیجنے ہونگی ایسے اشو پر جس پر ایل جی اور دہلی سرکار کے نظریات ایک جیسے نہیں ہونگے اسے آخری منظوری کیلئے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجنے کی سہولت تو ہے ہی ۔نئے تجویز میں کہا گیاہے جب تک صدر فیصلہ نہیں لیتے ایل جی کو فیصلہ لینے کا اختیار ہوگا۔ بشرطیہ کہ وہ معاملہ ایسا ہو جس پر فوری فیصلہ کرنا ضروری ہو عام معاملوں میں ایل جی کو یہ اختیار نہیں ہوگا ۔ یہ سہولت اس لئے اہم ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ دہلی سرکار کو ہرمعاملے میں ایل جی سے توثیق کروانا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ انہیں جانکاری دی جاسکتی ہے اس فیصلے کے بعد ایل جی کی طاقت کچھ حد تک کم ہوگئی تھی ایل جی کے اختیارات بڑھانے کو لیکر سرکار کی طرف سے باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کے اسی سیشن میں یہ بل پیش ہوسکتا ہے جس پر حکمراں فریق اور اپوزیشن میں ٹکراو¿ بڑھ سکتا ہے حالانکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ترامیم سے گورنرس میں بہتری آسکتی ہے اختیارات کی واضح تفصیل کو لیکر سپریم کورٹ نے جنوری 2019میں آئے فیصلے کے بعد اختیارات کو وضاحت کرنے کی ضرورت پڑی ہے ۔ ظاہر ہے ،اس تازہ تجویز سے دہلی سرکار کی طرف سے سوال اٹھنا ایک معمولاتی حصہ ہے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے دہلی میں جنتا کے ذریعے چنی گئی سرکار کے اختیارات چھین کرلیفٹننٹ گورنر کو دینے کا کام کیا گیا ہے ۔ اور اب دہلی سرکار کے پاس فیصلے لینے کی طاقت نہیں رہے گی ۔سوال یہ ہے کہ اگر دہلی سرکار کا یہ الزام صحیح ہے تو مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ جمہوریت اور آئین کے خلاف کیا گیا ہے یہ بات قابل تشویش ہے کہ کیا مرکزی کیبنٹ کے اس ترمیم کے ذریعے سچ میں دہلی سرکار کے اختیارات کو محدود کیا جار ہا ہے ؟ یقینی طور پر دہلی میں جمہوری طریقے سے چنی گئی سرکار اور اپنی حد میں کام کرنے کا اختیار ہونا چاہئے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی پہلو ہے کہ دہلی قومی راجدھانی بھی ہے اور اس ناطے مرکزی حکومت کو ممکنہ پالیس سطح پر کئی معاملوں پر دھیان رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہوگی ۔ کہا جا رہا ہے کہ تازہ ترمیم انتظامیہ کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ اور دہلی سرکار اور ایل جی کے درمیان ٹکراو¿ کم کرنے کیلئے کئے جا رہے ہیں ۔ لیکن آئینی اور انتظامی تجویز پر آگے قدم بڑھانے کے لئے ایل جی کے پاس بھیجنے کی جو شرط رکھی گئی ہے ،کیا اس سے آنے والے دنوں میں مرکز اوردہلی سرکار کے درمیان آنے والے کھینچ تان اور ٹکراو¿ کے حالات اور نہیں بڑھیں گے ؟ اور آئین سازیہ اور انتظامیہ کے کام میں اگر کوئی ٹکراو¿ یا تعطل پیدا ہوتا ہے اس سے کسی کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اور ٹکراو¿ضرور بڑھے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟