یہ کسانوں کی سرمایا داروں سے آزادی کی لڑائی ہے !

مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانین کے خلاف بہادر گڑھ ۔دہلی بارڈر پر واقع ٹکری میں دھرنے پر بیٹھے ایک اور کسان نے اتوار کو پھانسی لگا کر خود کشی کر لی پولس نے بتایا کہ کسان نے ایک سوسائیڈ نوٹ چھوڑا ہے ، جس میں مرکزی سرکار کے خراب رویے سے پریشان ہونے کی بات لکھی ہے اس نے بتایا متوفی کی پہچان ہریانہ کے جند ضلع کے سنگھوال گاو¿ں کے باشندے 52سالہ کرم ویر سنگھوال کے طور پرہوئی ہے پولس نے بتایا کہ رات میں ہی وہ اپنے گاو¿ں سے ٹکری بارڈر آیا تھا اور وہ اتوار کو بہادر گڑھ کے بائی پاس بنے نئے بس اسٹینڈ کے پاس ایک پیڑ پر پلاسٹک کی رسی کا پھندہ گلے میں ڈال کر جان دے دی بھارتی کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے اتوار کو بھوانی کے کتلانا میں مشترکہ محاذ کی طرف سے منعقدہ کسان ریلی میں گئے تھے ۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ زرعی قوانین کو منسوخ نہ ہونے پر اناج کو روپئے کی طرح سنبھال کر تجوری میں رکھنا پڑے گا جب تک تینوں زرعی قوانین واپس نہیں ہوجاتے تب تک گھر واپسی نہیں ہوگی۔ یہ کسانوں کی سرمایا داروں سے آزادی کی لڑائی ہے ٹکیت کا کہنا تھا کہ کچھ لیڈروں نے کسانوںکے سکھ اور غیر سکھ میں باٹنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوپائے اب ہریانہ اور پنجاب کے لوگ متحد ہوگئے ہیں ۔ خاص سسٹم مضبوط ہے اور آج اس کی ضرورت بھی ہے ٹکیت نے سرکار سے مانگ کی تینوں قانون واپس لئے جائیں اور ایم ایس پی پر قانون بنایا جائے اور گرفتار کسانوں کو چھوڑ اجائے جب تک سرکار ان تینوں قوانین کو واپس نہیں لیتی تب تک یہ آندولن جاری رہے گا اور یہ عوام کا آندولن ہے اور یہ فیل نہیں ہوگا انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئے زرعی قوانین کے خلاف آندولن مضبوط ہوتے جا رہا ہے اور کئی کھاپ نیتا مہا پنچایت میں موجود تھے ۔ دادری سے آزادممبر اسمبلی اور سانگوان کھاپ کے چیف سوب بیر سانگوان بھی موجود رہے ۔ انہوں نے پچھلے سال دسمبر میں ریاستی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی اور ریاستی سرکار کو کسان مخالف قرار دیا تھا ۔ کسان انجمنوں کے درمیان ٹکیت نے کہا کہ منچ اور پنچ نہیں بدلیں گے اور پنجاب سے بھارتی کسان یونین کے لیڈر بلویر سنگھ راجے والے کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمارے بڑے لیڈر ہیں ۔ ہم یہ لڑائی مضبوطی سے لڑیں گے کسان انجمنوں کے ارادے پکے لگتے ہیں وہ آر پار کی لڑائی لڑنے کے مونڈ میں ہے ہم پھر دہراتے ہیں سرکار کو ان تینوں قوانین کو ملتوی کردینا چاہئے اور ان کسانوں کی مانگوں کو (جو انہیں بھی صحیح لگتی ہیں)نئے قانون میں شامل کرکے پاس کرے ۔ کسان ماننے والے نہیں ہیں ۔ وہ بہت لمبی لڑائی لڑنے کے مونڈ میں ہے سرکار کو بلا تاخیر کوئی ہل نکالنا ہوگا یہ حکومت کے مفاد میں بھی ہے اور دیش کے بھی اور کسانوں کے بھی مفاد میں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟