بات چیت بے شک بے نتیجہ رہی پر ہمارے حوصلے بلند ہیں!

کسان تنظیموں کے نمائندوں اورمرکزی سرکار کے درمیان ساتویں دور کی بات چیت بھی بے نتیجہ رہی ۔دونوں فریقین میں اتنے دور کی بات چیت کا کوئی حل نا نکلنا سبھی کے لئے تشویش کی بات ہے نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لیکر کسانوں کے دھرنے کو چالیس دن ہو چکے ہیں اب تک پچاس سے زائد احتجاجی کسانوں کی موت ہو چکی ہے ۔اس کے باوجود ٹھنڈ اور بارش میں بزرگ عورتیں اور بچے کھلے آسمان کے نیچے ڈٹے ہوئے ہیں ۔سرکار کے ہٹ دھرمی کے رویہ سے ناراض کچھ کسانوں نے خود کشی جیسے قدم اٹھا لئے ان واقعات سے صاف ہے کہ اگر سرکار نے کوئی جلد قابل قبول حل نہیں نکالا تو آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوںگے کسان انجمنیں اپنے رخ پر اٹل ہیں ۔جب تک سرکار ان تینوں زرعی قوانین کو واپس نہیں لیتی تب تک تحریک ختم نہیں ہوگی ۔چاہے اس کے لئے کتنا بھی وقت کیوں نا لگے ۔سرکار بھی صاف کر چکی ہے کہ زروعی قوانین کی واپسی نہیں ہوگی ظاہر ہے جب دونوں فریقین نے اسے اپنی آن کا سوال بنا لیا ہے اورکوئی بھی جھکنے کو تیار نہیں ہے تو تعطل ختم ہونے کے بعد اور بڑھے گا تعطل ایک ایسے وقت کو جنم دے رہا ہے جو کسی بھی شکل میں بھارت جیسے جمہوری دیش کے لئے اچھا نہیں مانا جا سکتا ۔کسان نیتا بلوندر سنگھ راجیشوار اور تین وزراءکے درمیان دیر تک تلخ بحث ہو گی ۔میٹنگ کی شروعات میں ہی تینوں وزراءنے تینوں قوانین کو ایک ایک تقاضہ پر بات چیت پر نکتہ وار تشویش رکھی ۔ذرائع کا کہنا ہے بات چیت کے دوران ایک وزیربے حد ناراض ہو گئے وزیرزراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا جب ہم تاریخ طے کرتے ہیں تو کسانوں سے رائے لینے کے بعد ہی کرتے ہیں اور مسئلے کے حل کے لئے دونوںہاتھوں سے تالی بجنی چاہیے وہیں کسانوں کا کہنا ہے کہ بات چیت بھلے ہی بے نتیجہ رہی ہو لیکن ہمارے حوصلے ابھی بھی بلند ہیں ۔دہلی کی سرحدوں پر کسان پہلے کی طرح ڈٹے رہیں گے پھر چاہے کتنا ہی وقت لگے ۔ہم بھاگنے والے نہیں سرکار ہمارے صبر کا امتحان لے رہی ہے ۔پیش ہے وزیراور کسان نیتاو¿ں میں بحث : وزیر: قانون کے جن تقاضوں پر کسان انجمنوں کو اعتراض ہے اس پر بات ہونی چاہیے ۔کسان نیتا راجیشوال اس بات چیت سے پہلے کسان انجمنیں کئی بار کہہ چکی ہیں کہ سرکار سے بات چیت تقاضوں کو لیکر نہیں بلکہ صرف قوانین کی واپسی پر ہی ہوگی ۔وزیر: یہ رویہ بات چیت اٹکانے والا ہے ۔راجیشوال : سرکار کسان تنظیموں کو قانون کے بجائے ترامیم میں الجھائے رکھنا چاہتی ہے ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری مانگ تینوں قوانین کی واپسی اور ایم ایس پی پر قانونی گارنٹی دینے کی ہے ۔پنجابی یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات کے پروفیسر جسوندر سنگھ نے بات چیت میں کہا کہ کھیتی قانون نا تو کسانوں اور نا ہی دیش کی کھیتی باڑی سیکٹر کے مفاد میںہے ۔اس لئے مرکزی سرکار کو چاہیے ان کھیتی قانون کو منسوخ کرے ۔مودی سرکار اس وقت کارپوریٹ گھرانوں کے بھاری دباو¿ میں ہے اسی وجہ سے معاملہ حل نہیں ہو پا رہا ہے ۔پروفیسر براڈ نے آگے کہا کہ کسانوں کی تحریک لمبی چل سکتی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟