امت شاہ کی پرچھائی سے نکلتے جے پی نڈا!

بہار اسمبلی چناو¿اور اس کے ساتھ کئی ریاستوں میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتیجوں نے بھاجپا کے قومی صدر جے پی نڈا کو بڑی مضبوطی دی ہے چونکہ وہ باقاعدہ طور سے پارٹی صدر کی کمان سنبھالنے کے بعد پہلے بڑے چناو¿ میں پارٹی نے کامیابی حاصل کی ہے وہیں ریاستوں میں مستقبل کے چہروں کی تلاش تیز ہو سکتی ہے ممکنہ آپسی سنگھرش بھی دکھائی دے سکتا ہے ۔مدھیہ پردیش اور کرناٹک پر خاص نظر رہے گی جہاں تیسرے مضبوط چہروں کی شکل میں جوترآدتیہ سندھیا اور وی وائی وجیندر نے کافی کامیابی دلائی ۔سابق بھاجپا صدر امت شاہ کی کھینچی لمبی لکیر کے بعد پارٹی کمان سنبھالنا کسی کے لئے آسان نہیں ہے لیکن نڈا نے بہار جیسی ریاست میں جیت کے ساتھ یہ عزم دکھایا کہ وہ شاہ کی لکیر کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔بہار کا اثر اگلے سال ہونے والے بنگال آسام میں دکھائی پڑ سکتا ہے ۔اگر بنگال بھاجپا کی جھولی میں آیا تو نڈا بھاجپا توقع کے مطابق اونچائیوں پر لے جانے والے پہلے صدر ہوں گے ۔مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نڈا کو گھر جاکر انہیں مبارکباد دی اب جبکہ بھاجپا ریاست میں نمبردو آنے کے باوجود اسٹرائک ریٹ کے لحاظ سے یہ بھی طے ہوگا کہ مستقبل کا چہرہ کون ہوسکتا ہے بہرحال بہار اور چار ریاستوں میں ہوئے ضمنی چناو¿ نے ایسے چہروں کو کھڑا کر دیا ہے ۔جو اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں ۔اور انہیں لمبے عرصہ تک نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا دراصل مدھیہ پردیش میں بھاجپا سے زیادہ جوتر آدتیہ سندھیا کی ناک کاسوال تھا انہوں نے بیس ممبران اسمبلی کی جیت یقینی بنا دی ۔اس سے انکار کرنا مشکل ہے کہ پردیش مین شیو راج سنگھ چوہان اور نریندرسنگھ تومر خیمے کے بعد اب سندھیا خیمہ بھی سر تان کر کھڑا رہے گا ۔وہیں اتر پردیش میں کامیابی کا سہرہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے کھاتہ میں گیا ہے ۔اس چناو¿ کے نتیجے اس لئے بھی اہم ہیں کیوں کہ اگلے ڈیڑ ھ سال میں یوپی میں چناو¿ ہونا ہے ایسے ہی کرناٹک میں جیت کا کریڈٹ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ بی ایس یدی یورپہ کو دیا ہے ۔بھاجپا کے اندر وہاں بھی ایک ایسا گرو پ ہے جو مودی کے خلاف ہے اس میں دلچسپ یہ ہے کہ اس چناو¿ میں وزیراعلیٰ کے لڑکے اور پردیش نائب صدر وائی وی وجیندر کو چمکا دیا ہے ۔پچھلے سال وجیندر نے جب جنتا دل سیکولر کے گڑ میں پارٹی کے لئے جیت حاصل کی تھی اس مرتبہ سارا اسمبلی حلقہ کو بھاجپا میں جوڑدیا ہے ۔یہ ناممکن جیت مانی جارہی تھی کیوں کہ ذات پات کے تجزیہ کے لحاظ سے یہ سیٹ بھاجپا کے موافق نہیں تھی ۔17برسوں میں پہلی بار بھاجپا نے سیٹ جیتی ہے اور اس لئے وجیندر کو یہاں کا ارجن تک کہا جانے لگا ہے ۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟