خطرناک ہے آن لائن مواد پر سرکاری کنٹرول!

xاب مرکزی سرکار نے انٹرنیٹ کے ذریعے دکھائی جارہی فلموں نیوزمیٹر وغیرہ کو وزارت اطلاعات نشریات کی نگرانی میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ابھی تک بڑے پردے اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی فلمیں ہی اس کی نگرانی میں تھیں اب نیٹ فلکس ایمازون ،یوٹیوب ،پر ڈالے جانے والے میٹر پر بھی اس کی نظر ہوگی جب سپریم کورٹ نے کچھ ٹی وی چینلوں پر ٹیلی کاسٹ ہونے والے قابل اعتراض مواد پر نظر رکھنے سے متعلق اقدامات کے بارے مین مرکزی سرکار سے پوچھاتھا تب اس کا کہناتھا کہ ٹیلی ویزن چینلوں سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا انٹرنیٹ ذرائع سے ڈالے گئے میٹر سے ہے ۔مگر اب تک عدالت نے کہا تھا کہ الیکٹرونک میڈیا پر دکھائے جانے والے خبروں کا تجزیہ خود ناظرین کر دیتے ہیں پھر لوگوں کو یہ آزادی ملنی ہی چاہیے کہ وہ کیا دیکھنا پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں مگر کیوں کہ انٹر نیٹ کے ذریعے دکھائے گئے میٹر پر ابھی تک کسی ریگولیٹری ادارے کی نظر سے دور رہے ہیں ایک طرح سے سبھی کے لئے یہ آزاد ہے اس لئے کئی چیزیں ایسی بھی ان پر لکھی و دکھائی جاتی ہیں جس سے سرکار کے لئے پریشانی کھڑی ہوتی رہی ہے ایسے میں کئی لوگوں کو فطری طورپر خیال ہے کہ سرکار سوشل میڈیا و الیکٹرونک میڈیا جیسے ذرائع پر لگام کسنا چاہتی ہے ۔اب اس سرکاری نوٹیفکیشن سے فطری طور سے یہ تشویش جگا دی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پہ پہر ہ بٹھانے کے خیال دیش میں ایک بار پھر حاوی ہو رہا ہے ۔نوٹیفکیشن سے اس خطہ کو تقویت ملی ہے کہ سرکار ان نئے اور ترقی پسند میڈیا سیکٹروں کو قاعدے و قوانین میں باندھنے کے بارے میں سوچ رہی ہے جبکہ فی الحال ضرورت اس بندش کو اور کم کرنے کی ہے آن لائن کنٹینٹ اور اظہار رائے کے اختیار کو کنٹرول کرنے کی تو سیدھے لفظوں میں کہا جائے تو یہ ایک طرح سنشر شپ ہے ۔جس کی کسی بھی جمہوریت میں وکالت نہیں کی جا سکتی اگر سرکار اس کو عمل میں لاتی ہے تو یہ ایک سماج کی شکل میں ہمیں پیچھے لے جانے والا قدم ہو گا ویسے بھی ہمارے یہاں صحافیوں کو ملک دشمن کے الزامات میں گرفتار کئے جانے ہر سال بڑی تعداد میں ویب سائٹ کو بلاک کئے جانے اور سال درسال انٹرنیٹ شٹ ڈاو¿ن کرنے کے واقعات میڈیا کی آزادی پر سوالیہ نشان لگار ہے ہیں یہ ٹھیک ہے کہ ایک آزاد انٹرنیٹ سورسز پر دکھائے جانے والے میٹر الزام سے بری نہیں ہیں ۔انٹرنیٹ پردستیاب کرائے گئے میٹر سے لڑکوں پر برا اثر پڑ رہا ہے ۔اور فحاشیت اور بھونڈے پن کا الزام لگاتے ہوئے کئی پروگراموں پر روک لگانے کی ضرورت ظاہر کی جاتی رہی ہے ۔مگر سچائی یہ ہے سنیما اور ٹی وی پروگراموں پر غیر ضروری چلانے کا ٹرینڈ سے عاجز آکر ہی بہت سی فلم سازوں اور پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں نے او ٹی پی پراپنی فلموں اور سیریلوں کا ٹیلی کاسٹ کرنا مناسب سمجھا پھر لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے سارے سنیما گھر بند تھے فلم پروڈیوسروں کو یہ پلیٹ فام ملا اپنی فلموں ،سیریلوں کو دکھانے کا راستہ مل گیا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟